یہ کرم یہ بندہ نوا زیاں کہ سدا عطاپہ عطا ہوئی
جو ملا طلب سے سوا ملا کبھی رد نہ عرض ِ گدا ہوئی
جو گدازِ عشق رسول ہے مرے باغِ جاں کا وہ پھول ہے
وہ نماز جس میں مہک نہیں وہ ادا ہوئی بھی تو کیا ہوئی
وہ جہاں کہیں بھی ٹھہرے گئے وہ جہاں جہاں سے گزر گئے
وہیں سج گئی کوئی انجمن انہیں راستوں میں ضیا ہوئی
مرے حال میں مرے قال میں مرے دل میں بزم خیال میں
ہیں انہیں کی ساری تجلیاں یہ وہی ہیں جن سے ضیا ہوئی
مری دھڑکنوں میں سما گئے جو لگی تھی آگ بجھا گئے
مری روح ان پہ فدا ہوئی تو ہر ایک غم سے رہا ہوئی
مری دستگیر ہے ہر قدم مری زندگانی کا ہے بھرم
تری یاد ایسی رفیق ہے جو کبھی نہ مجھ سے جدا ہوئی
وہ ضیائے نورِ قدیم ہیں وہ دلیل رب ِ کریم ہیں
وہ جہاں بھی جلوہ نما ہوئے تو نمایاں شانِ خدا ہوئی
اسے ابتدائے کرم کہوں کہ میں فیض لطف ِ اتم کہوں
وہاں تم نے آ کے بچا لیا جہاں مجرموں کو سزا ہوئی
کہوں کیا میں خاؔلد ِ بینوا کہ درِ حضور سے کیا ملا
جو بیاں کرو تو نہ کرسکوں مرے حال پر وہ عطا ہوئی