یہ حسرت ہے تمنا بن کے لپٹوں ان کے داماں سے رہائی جب ملے مجھ کو اس آب و گل کے زنداں سے
مری مٹی ٹھکانے لگ چکی تھی فضل یزداں سے صبا ناحق اڑا لائی مدینے کے بیاباں سے
خدا شاہد زمانہ سرکٹاتا حسنِ یوسف پر نمک تھوڑا سامل جاتا اگر ان کے نمکداں سے
ترے قرباں بتا دے کیوں یہ طوفاں پانی پانی ہے تری رحمت نے بڑھ کر کیا کہا سیلابِ عصیاں سے
مہ و خورشید سے کہہ دو کہ آئیں بھیک لینے کو ہویدا وہ ہوئے جلوے پھر ان کے یوسفتاں سے
یہ کس کی یاد میں رہ رہ کے قلب مضطرب رویا یہ کیسے آج موتی جھڑ رہے ہیں نوک مژگاں سے
پھنسی ہے کشتئ ملت بھنور میں یارسول اللہﷺ اشارہ آپ کا گر ہو نکل جائے یہ طوفاں سے
نہ یوں بیتاب ہو قلب حزیں آنے تو دے ان کو گرایا بے خودی نے اور میں لپٹا اُن کے داماں سے
خلیؔل ان کا ہے تو پھر خوف کیا دنیا کے کتوں کا سگانِ یار تو ڈرتے نہیں ہیں شیر نیساں سے