یا نبی یاد تِری دل سے مرے کیوں جائے بختِ بیدار مِرا جاگ کے کیوں سو جائے
لاکھ عشاقِ مدینہ ہیں الم سے گھائل تم جو آ جاؤ تو پیارے کوئی کیوں گھبرائے
جب نظر ہی میں نہیں لاتے دو عالم کا جمال ان کے دیوانوں کو فردوس بھی کیوں بہلائے
صبح کا وقت ہے آقا مِری جھولی بھر دو کٹ گئی رات یوں ہی دستِ طلب پھیلائے
ٹوٹ جائے غم و کلفت کی چٹانوں کا غرور سبز گنبد سے اگر دل کی صدا ٹکرائے
آگئے والیِ بطحا کی اماں میں ارشد کہہ دو آنا ہے تو اب پیکِ اجل آجائے