ہے بے قرار دعا جیسے مُدّعا کے بغیر
رہا گیا نہ خدا سے بھی دلبر با کے بغیر
صراطِ حق کا تعیّن نہ کر سکی دنیَا
محمد ِ عربی تیرے نقشِ پا کے بغیر
بڑہا کے دستِ طلب مانگنا ہے بے ادبی
درِ کریم سے ملتا ہے التجا کے بغیر
کسی کی بات بنی ہے نہ بن سکے گی کبھی
جہاں میں واسطۂ فیض مصطفی کے بغیر
انہیں کی صرف دو ہائی دو ڈو بنے والو
نہ پار ہوگا سفینہ یہ نا خدا کے بغیر
تری رضا کو نہ کیوں عینِ بندگی مانیں
خدا بھی ہوگا نہ راضی تری رضا کے بغیر
ترے حبیب کا ادنی غلام ہے خاؔلد
مرے کریم اسے بخش دے سزا کے بغیر