ہے زیست کی بہار دیار ِ رسول میں
ملتا ہے ہر قرار دیارِ رسول میں
خلدِ بریں ہے عرش ِ معلیٰ ہے طور ہے
جلوے ہیں بے شمار دیارِ رسول میں
ان کے کرم نے بات بنائی توبن گئی
پہنچے مآلِ کار دیارِ رسول میں
ہوتی ہیں صاف کیسے دلوں کی کثافتیں
سب کچھ ہے آشکار دیا رِ رسول میں
جی بھر کے پی رہے ہیں مئے سلسبیلِ عشق
پھر بھی ہیں ہوشیار دیارِ رسول میں
ان کے لئے کشادہ ہے آغوش ہر کرم
جتنے ہیں شرمسار دیارِ رسول میں
آئے تو اشکبار تھیں آنکھیں فراق میں
پہنچے بھی اشکبار دیارِ رسول میں
پڑھ کر نمازِ عشق سرِ آستانِ قدس
خاؔلد جبیں سنوار دیار رسول میں