ہیں جتنی آزمائش اب اُنہیں آقا فنا کر دیں کرم کی بارشیں مجھ پر شہ ارض و سما کردیں دعا مرشد کی پوری یا حبیب کبریا کردیں منور میری آنکھوں کو مرے شمس الضحٰی کردیں غموں کی دھوپ میں وہ سایۂ زلف دوتا کردیں
ہوا کو آب کردیں آب کو پل میں ہوا کردیں کسی کو خامشی سے دیں کسی کو برملا کردیں قمر دو ٹکڑے ہوجائے اشارہ مصطفیٰ کردیں جہاں بانی عطا کریں بھری جنت ہبہ کردیں نبی مختار کل ہے جسکو جو چاہیں عطا کردیں
مدینہ جانے والے خوب ہنستے مسکراتے ہیں وہاں پہنچے کہ دنیا بھول کر خوشیاں مناتے ہیں بوقتِ رخصتی لیکن بہت آنسو بہاتے ہیں کسی کو وہ ہنساتے ہیں کسی کو وہ رلاتے ہیں وہ یونہی آزماتے ہیں وہ اب تو فیصلہ کردیں
سلیقہ نعت گوئی کا مجھے ایسا عطا کردیں تمنا ہے غلامِ حضرتِ احمد رضا کردیں نہ کر پائیں اگر کچھ آپ تو اتنا کہا کردیں جہاں میں عام پیغامِ شہِ احمد رضا کردیں پلٹ کرپیچھے دیکھیں پھرسے تجدیدِ وفا کردیں
ہجوم غم مٹانے کی انہیں مولی نے دی پاور ملےگی ہم کو محشر میں سنہری نور کی چادر کہیں گے ہم وہی عثماں جو کہتے ہیں مرے اختر مجھے کیا فکر ہو اختر مرے یاور ہیں وہ یاور بلاؤں کو جو میری خود گرفتار بلا کردیں
از قلم ✍️ عثمان ہارونی قادری اودیپور راجستھان
Home