ہُوک اٹھتی ہے جب بھی سینے سے
ربط بڑھتا ہے کچھ مدینے سے
صرف عشق ِ نبی ہے ایسی شراب
ہوش بڑھتا ہے جس کے پینے سے
بے نیازی اسی کا حصّہ ہے
بھیک جس کو ملے مدینے سے
عرش پر ہے دماغ پھولوں کا
پا کے خوشبو ترے پسینے سے
ان کی رحمت ہے پاسباں جس کی
کون ٹکرائے اس سفینے سے
رد دعائیں نہیں ہوا کرتیں،
ہاں مگر مانگیئے قرینے سے
میں خدائے کریم تک پہنچا
نسبتِ مصطفی کے زینے سے
دلِ غنی ہے تمہاری الفت سے
مطمئن ہوں میں اس خزینے سے
ہو نہ عشقِ نبی اگر خاؔلد،
آب چھن جائے آب گینے سے