منقبت بحضور سید الشہداء سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ
لہو ہماری رگوں میں جب تک رواں رہے گا ہمیشہ ذکرِ حسین زیرِ زباں رہے گا
کسی بھی غم کو دوام اب تک ملا نہیں ہے مگر غمِ کربلا ہمیشہ جواں رہے گا
یہی وہ غم ہے جو وجہِ تسکینِ قلب و جاں ہے جسے بھی دولت یہ مل گئی شادماں رہے گا
حسین روشن فصیلِ دل پر رہے گا یوں ہی یزید تاریکیوں میں یوں ہی نہاں رہے گا
اثر پزیریِ خونِ اصغر یوں ہی رہے گی یوں ہی سرِ شام سرخ رنگ آسماں رہے گا
بکھر کے آلِ نبی کے پھول اور نکھر گئے ہیں بغیر پانی کے سبز یہ گلستاں رہے گا
سدا یوں ہی ریگِ کربلا چیختی رہے گی فرات کے لب پہ یوں ہی آہ و فغاں رہے گا
یزید کا نام اڑ گیا ہے دھویں کی صورت حسین کا نام تا ابد جاوداں رہے گا
حسین نے اپنے خوں سے روشن کیا ہے اس کو چراغِ اسلام حشر تک ضوفشاں رہے گا
کسی نے پوچھا تھا کیا رہے گا یہ ذکر جاری؟ نواز میں نے بھی کہہ دیا اس سے، ہاں رہے گا
نواز اعظمی مصباحی