ہم غریبوں کا آسرا تم ہو بزم کونین کی ضیا تم ہو
کون ہے میری زندگی کی بہار راز پہناں سے آشنا تم ہو
ہوگیا نازش دو عالم وہ جس کو کہہ دو مِرے دوا تم ہو
اس طرف بھی ذرا نگاہ کرم درد دل کی مِرے دوا تم ہو
میرے دل کو ہو خوف رہزن کیوں جب کہ خود میرے رہنما تم ہو
عکس ہے تیرا شیشۂ دل میں مرے دل سے کہاں جدا تم ہو
ہم غریبوں کی جھولیاں بھر دو بحر جود و سخا شہا تم ہو
پھر بھلا خوف موج طوفاں کیا میری کشتی کے ناخدا تم ہو
بختِ اخؔتر بھی جگمگا اُٹھا ملتفت جب سے باخدا تم ہو!