ہم رسول مدنی کو نہ خدا جانتے ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ سے جدا جانتے ہیں
دونوں عالم تمہیں محبوب خدا جانتے ہیں حق یہ ہے بعد خدا سب سے بڑا جانتے ہیں
اپنی ہستی جو ترے درپہ مٹا جانتے ہیں کچھ وہی لطف فنا اور بقا جانتے ہیں
نہ ادب اور نہ تری مدح و ثنا جانتے ہیں ہاتھ پھیلائے ترے درپہ سدا جانتے ہیں
میرے داتا مرے مولیٰ مجھے ٹکڑا مل جائے بینوا اس کے سوا اور نہ صدا جانتے ہیں
وصل و فرقت کا کوئی حال تو ان سے پوچھے تیرے درپر جو تڑپنے کا مزہ جانتے ہیں
آنکھوں والوں کو نظر آتے ہیں ان کے جلوے ان کے دیدار کو دیدار خدا جانتے ہیں
اصل کو چھوڑ کے کس واسطے شاخیں پکڑیں ہم تو ایمان فقط تیری رضا جانتے ہیں
یارسول عربی کیوں نہ رکھیں درد زباں آپ کے نام کو ہم نام خدا جانتے ہیں
سر ہے کعبہ کی طرف دل ہے تمہاری جانب ایسے سجدہ کو توعشاق روا جانتے ہیں
جان عیسیٰ ترے اعجاز کا کہنا کیا ہے جبکہ بندے ترے مردوں کو جلا جانتے ہیں
تیرے زوار کو رہبر کی ضرورت کیا ہے تیری خوشبو سے ترے گھر کا پتا جانتے ہیں
کیوں بھٹکتے پھریں سرکار کے بندے دردر بگڑیاں سب کی وہ اک پل میں بنا جانتے ہیں
درِاقدس پہ تمہارے جو پڑے رہتے ہیں بڑھکے جنت سے مدینے کی فضا جانتے ہیں
قبرو محشر سے ڈریں کس لیے عاصی ان کے جو اشارے سے اسیروں کو کو چھڑا جانتے ہیں
حق نے تم کو دیا تم باٹتے ہو عالم میں جو ملا جس کو تمہارا ہی دیا جانتے ہیں
بے ادب دشمن دیں محفل میلاد ہے یہ ان کے عشاق ہی کچھ اس کا مزہ جانتے ہیں
بے بصر ان کی وجاہت کو بھلا کیا جانے اہل ایمان انہیں شانِ خدا جانتے ہیں
عالم الغیب فلا یظھر آیت پڑھ لو تب یہ معلوم ہو تم کو کہ وہ کیا جانتے ہیں
عالم الغیب نے ہر غیب سکھایا ان کو ذرہ ذرہ کی خبر شاہ ہدی جانتے ہیں
آیۂ علمک ہے مرے دعوےکی دلیل اس کا منکر ہی کہے گا کہ وہ کیا جانتے ہیں
سامنےان کے دو عالم ہیں مثالِ کف دست ان کے ارشاد کو ہم حق بخدا جانتے ہیں
اولیا کے لیے فرماتے ہیں مولنا روم لوح محفوظ میں جو کچھ ہے لکھا جانتے ہیں
ہم یہ کب کہتے ہیں ذاتی ہے علوم سرکار ازازل تابہ ابد سب بعطا جانتے ہیں
علم سرکار ہے حادث تو خدا کا ہے قدیم اب نہ کہنا یہ کبھی تم کہ وہ کیا جانتے ہیں
اس کو جو شرک بتاتے ہیں وہابی مرتد تو خدا ہی کو وہ ظالم نہ خدا جانتے ہیں
دولۃ المکیہ نے ان پہ قیامت توڑی اب وہابی نہ کہیں گے کہ وہ کیا جانتے ہیں
مژدۂ نار سنا ان کو جمیل رضوی ذات رحمٰن سے جو ان کو جدا جانتے ہیں
قبالۂ بخشش