ہر نظر کانپ اٹھے گی محشر کے دن خوف سے ہر کلیجہ دہل جائے گا
پریہ ناز ان کے بندے کا دیکھیں گے سب تھام کر ان کا دامن مچل جائےگا
موج کترا کے ہم سے چلی جائیگی رخ مخالف ہوا کا بدل جائے گا
جب اشارہ کریں گے وہ نامِ خدا اپنا بیڑا بھنور سے نکل جائے گا
یوں تو جیتا ہوں حکمِ خدا سے مگر میرے دل کی ہے ان کو یقیناً خبر
حاصلِ زندگی ہوگا وہ دن مرا ان کے قدموں پہ جب دم نکل جائےگا
رب سّلم وہ فرمانیوالے ملے کیوں ستاتے ہیں اے دل تجھے وسوسے
پل سے گذریں گے ہم وجد کرتے ہوئے کون کہتا ہے پائوں پھسل جائےگا
اخترِؔؔ خستہ کیوں اتنا بے چین ہے تیرا آقا شہنشاہِ کونین ہے
لو لگا تو سہی شاہِ لولاک سے غم مسرت کے سانچے میں ڈھل جائےگا