ہر غم سے رہائی پاتے ہیں آغوش ِکرم میں پلتے ہیں
اے رہبر ِ کامل صلی علیٰ جو تیرے سہارے چلتے ہیں
طیبہ ہے دلیل راہِ یقین طیبہ ہے شعور ِ دیں کا امیں
عرفانِ خدا ملتا ہے یہیں سب رستے یہیں سے نکلتے ہیں
دل گریہ کناں فریاد بلب جب یاد کیا کرتا ہے انہیں
رحمت کے دریچے کھلتے ہیں سب یاس کے سائے ڈھلتے ہیں
کیا دیکھ رہا ہے زاد ِ سفر اٹھ باندھ کمر رکھ اُن پہ نظر
محروم تمناؤں کے دیئے طیبہ ہی پہنچ کر جلتے ہیں
جب یاد نبی آجاتی ہے خوشبو کی طرح مہکاتی ہے
ورنہ تو غموں کے اندھیارے جب آتے ہیں کب ٹلتے ہیں
کُھلتی ہیں انہیں خوش بختوں پر ایمان کی منزل کی راہیں
سرکارِ مدینہ کے در سے جو آنکھیں اپنی ملتے ہیں
ملتے ہیں وہیں اِترائے ہوئے ہر چوکھٹ کے ٹھکرائے ہوئے
جو لوگ کسی مصرف کے نہیں سرکار کے در پر پلتے ہیں
ہر غم کی سپر ہے نامِ نبی ایمان بھی خاؔلد کا ہے یہی
آجائے جو لب پہ نام اُن کا گرنے سے پہلے سنبھلتے ہیں