گفتگو کر نور کی نورِ خدا کی بات کر ہم سے کرنی ہے اگر تو مصطفی کی بات کر
اے امیرِ شہر مفلس کو بھی سینے سے لگا میرے آقا کو جو بھائے اُس ادا کی بات کر
تزکرہ شہرِ مدینہ کا زرا کر جھوم کے گنبدِ خضرا سے آئے اُس ہوا کی بات کر
تیری سُلطانی کے قصّے یار تیرے پاس رکھ عشقِ سرور میں جو جھومیں اس گدا کی بات کر
مردِ مومن خوف کھانا تیری فطرت میں نہیں باطلوں سے سر اٹھا کر مرتضی کی بات کر
تیرے قدموں کی رسائی چاند تک محدود ہے لامکاں تک جانے والے نقشِ پا کی بات کر
کیا بیاں کر پائے گا توصیف تو ان کی فرؔاز نعت کی ہے بات تو احمد رضا کی بات کر
کلام : احمد فراز