کیا کہوں کیسے ہیں پیارے تیرے پیارے گیسو دونوں عارض ہیں ضحیٰ لیل کے پارے گیسو
دست قدرت نے ترے آپ سنوارے گیسو حور سو ناز سے کیوں ان پہ نہ وارے گیسو
خاک طیبہ سے اگر کوئ نکھارے گیسو سنبل خلد تو کیا حور بھی ہارے گیسو
سنبل طیبہ کو دیکھے جو سنوارے گیسو سنبل خلد کے رضواں بھی نثارے گیسو
کس لئے عنبر سارا نہ ہوں سارے گیسو گیسو کس کے ہیں یہ پیارے ہیں تمہارے گیسو
ہوں نہ کیوں رحمت حق، حق میں ہمارے گیسو گیسو اے جان کرم ہیں یہ تمہارے گیسو
یہ گھٹا جھوم کے کعبہ کی فضا پر آئی اڑ کے یا ابرو پہ چھائے ہیں تمہارے گیسو
ماہ تاباں پہ ہیں رحمت کی گھٹائیں چھائیں روئے پر نور پہ یا چھائے تمہارے گیسو
سر بسجدہ ہوئے محراب خم ابرو میں کعبۂ جاں کے جو آئے ہیں کنارے گیسو
نیر حشر ہے سر پر نہیں سایہ سرور ہے کڑی دھوپ کریں سایہ تمہارے گیسو
سوکھ جائے نہ کہیں کشت امل اے سرور بوندیاں لکۂ رحمت سے اتارے گیسو
اپنی زلفوں سے اگر نعل مبارک پونچھے رضواں برکت کے لئے حور کے دھارے گیسو
گرد جھاڑی ہے ترے روضہ کی بالوں سے شہا مشک بو کیسے نہ ہوں آج ہمارے گیسو
اب چمکتی ہے سیہ کارو تمہاری قسمت لو جھکے اذن کے سجدے کو وہ پیارے گیسو
پیش مولائے رضا جو ہیں جھکے سجدے میں کرتے ہیں بخشش امت کے اشارے گیسو
پھوار مستوں پہ ترے ابر کرم کی برسے ساقیا کھول ذرا حوض کنارے گیسو
سایہ بھی چاہئے ہے مستوں کو دو چھینٹے میں کاش ساقی کے کھلیں حوض کنارے گیسو
عنبرستاں بنے محشر کا وہ میداں سارا کھول دے ساقی اگر حوض کنارے گیسو
بادہ و ساقی لب جو تو ہیں پھر ابر بھی ہو ساقی کھل جائیں ترے حوض کنارے گیسو
یہ سر طور سے گرتے ہیں شرارے نورؔی روئے پر نور پہ یا وارے ہیں تارے گیسو
سامانِ بخشش