کہتے ہیں جس کو عارضِ تاباں حضورﷺ کا آئینہ جمال ہے ربّ غفور کا
دیدار ہوگا شافعِ یوم نشور کا کیوں کام لوں نہ آہ سے میں نفخِ صور کا
معراج کیا تھی نور سے ملنا تھا نور کا کیا دخل اس جگہ خردِ پُرفتور کا
ہے قٰصِرَاتِ طَرفْ، وتیرہ جو حور کا صدقہ ہے یہ بھی غیرتِ شاہِ غیور کا
طیبہ کی وادیوں میں پہنچ کر کُھلا یہ حال خاکہ یہی ہے خلد کے بام و قصور کا
چمٹا لیا تصورِ جاناں کو جان سے اللہ رے شعور دلِ بے شعور کا
چھائیں گھٹائیں رحمت پروردگار کی چھیڑوں جو ذکر شافع یوم نشور کا
بوئے دہن پہ میرے ملائک کریں ہجوم لاؤں جو لب پہ نام میں اپنے حضورﷺ کا
کون و مکاں کے راز سے واقف تمہیں تو ہو روشن ہے تم پہ ماجرا نزدیک و دور کا
کہنے کو اور بھی تھے اُولوالعزم انبیاء خالق نے تم کو صدر چنا بزمِ نور کا
یارب ترے غضب پہ ہے سابق ترا کرم اور مجھ کو اعتراف ہے اپنے قصور کا
آنکھوں میں ہیں جمالِ محمدﷺ کی تابشیں عالم نہ پوچھئے مرے کیف و سرور کا
نقشِ قدم پہ تیرے جو صدقے ہوا غبار غازہ بنا وہ چہرۂ زیبائے حور کا
ان کا کرم نہ کرتا اگر رہبری خلیؔل مقدور کب تھا مجھ کو ثنائے حضورﷺ کا