مدینے تک نہیں محدود رحمتیں ان کی کرم یہاں بھی ہیں ان کے کرم وہاں بھی ہیں جہاں پہ دوسرا نقشِ قدم نہیں کوئی میرے حضور کے نقش قدم وہاں بھی ہیں
کہاں جھکی ہے جبین نیاز کیا کہنا
رہا نہ کوئی بھی اب راز راز کیا کہنا
ہے مجھ پہ بھی نگہہ بخت ساز کیا کہنا
عطائے خواجہ عالم نواز کیا کہنا
دَرِرسول کی نسبت ہی سرفرازی ہے
نیاز مندکو حاصل ہے ناز کیا کہنا
نصیب امت عصیاں زدہ سنوار گئی
حضور کی نگہہ نیم باز کیا کہنا
جُھکے جو سرور عالم کے آستانے پر
ہوئے جہاں میں وہی سرفراز کیا کہنا
نبی کی یاد ہے اور عشق ہے امام اپنا
نصیب امت عصیاں زدہ سنوار گئی
تمہارے دامن رحمت کی ٹھنڈی چھاؤ تمہیں
ہر ایک غم سے ہیں ہم بے نیاز کیا کہنا
رُخ رسول حقیقت میں ہےوہ آئینہ
جس آئینے میں ہے آئینہ ساز کیا کہنا
یہ میرے دردِ محبت کا مجھ پہ احسان ہے
مرا نبی ہے مرا چارہ ساز کیا کہنا
مری طلب سے سوا مجھ کو بخش دینگے حضور
عیاں ہے اُن پہ مرے دل کا راز کیا کہنا
خطا کے بعد ِ ندامت قبول کی تونے
مرے کریم مرے کار ساز کیا کہنا
نہ لَب ہلے نہ بڑھے ہاتھ بھر گئی جھولی
عطائے درگہہِ بندہ نواز کیا کہنا
سیاہ کملی کے ہر تار سے مرے آقا
عیاں ہے بخشش ِ امت کاراز کیا کہنا
کس آستاں پہ جھکی ہے مری جبیں خاؔلد
ہے بندگی کو بھی سجدوں پہ ناز کیا کہنا