کھنچا جاتا ہے دل سوئے حرم پوشیدہ پوشیدہ تصور میں قدم بڑھنے لگے لغزیدہ لغزیدہ
دلِ بیتاب ہے اب کس لئے زاریدہ زاریدہ سلام شوق کو جاتا تو ہے طلبیدہ طلبیدہ
وہ شیرینی ہے نام پاک کے میم مشدّد میں کہ رہ جاتے ہیں دونوں لب بہم چسپیدہ چسپیدہ
حقیقت کیا مگر، فرش بیاضِ دیدہ کی غافل ملائک پر بچھاتے ہیں یہاں لرزیدہ لرزیدہ
وہ جس کی جستجو میں عرش اعظم بھی ہے سرگرداں اسے ٹوٹے دلوں نے پالیا پوشیدہ پوشیدہ
لبِ اعجاز حضرت کی ہیں گویا دونوں تصویریں تبسّم ریز یہ کلیاں وہ گل خندیدہ خندیدہ
وہ اٹھی دیکھئے گرد سواری شاہِ اسریٰ کی چلی بادِ سحر مشکِ ختن سائیدہ سائیدہ
تعاٰلَی اللہ یہ پاس خاطرِ عشاق ہے ان کو ہے تن پر خلعتِ شاہنشہی بوسیدہ بوسیدہ
وہ میرے ساقئی کوثر نے کھولا بابِ میخانہ اٹھا وہ طیبہ سے ابر کرم باریدہ باریدہ
شب اسریٰ کے دولھا کی ضیا پاشی کا صدقہ ہے کہ ہیں شام و سحر شمس و قمر رخشیدہ رخشیدہ
نہ ہوں کیوں کیف آور نزہتیں فردوس اعلیٰ کی اڑا لائی ہے طیبہ سے صبا دُزدیدہ دُزدیدہ
کریں گی ظلمت عصیاں سے نورِ مغفرت پیدا یہ پلکیں آپ کی شام و سحر نمدیدہ نمدیدہ
یہی دیوانگی فرزانگی کا رنگ لائےگی مدینے جائیگی میت مری رقصیدہ رقصیدہ
یہ ہے شاہ و گدا پر فیض تعلیم نبوت کا کہ رہتے ہیں ایاز و غزنوی گرویدہ گرویدہ
خلیؔل زار کو دیکھا تو ہوگا طیبہ میں ہمدم پڑا رہتا ہے دیوانہ سا کچھ سنجیدہ سنجیدہ