کون ہے وہ جو لکھے رتبۂ اعلیٰ ان کا وصف جب خود ہی کرے چاہنے والا ان کا
کیوں دل افروز نہ ہو جلوۂ زیبا ان کا دونو ں عالم میں چمکتا ہے تجلی ان کا
نعمتوں کا ہے خزانہ در والا ان کا دونوں عالم میں بٹا کرتا ہے باڑا ان کا
ایک عالم ہی نہیں والہ دشید ان کا ہے خدا وند جہاں چاہنے والا ان کا
تشنگی دل کی بجھا دیتا ہے چھینٹا ان کا خوان افضال پہ مہماں ہے زمانہ ان کا
سر بسر نور خدا ہے قد بالا ان کا نور بھردیتا ہے آنکھوں میں اجالا ان کا
ملک و جن و بشر پڑھتے ہیں کلمہ ان کا جانور سنگ و شجر کرتے ہیں چرچا ان کا
کون سی شے ہے وہ جس پر نہیں قبضہ ان کا کعبہ وارض و سما عرش معلیٰ ان کا
زندگی پاتا ہے کونین میں مردہ ان کا دم بھر ا کرتے ہیں ہر وقت مسیحا ان کا
حشر میں پل سے اتارے گا سہارا ان کا بیڑیاں کٹنے کو کافی ہے اشارہ ان کا
مجھ سا عاضی نہ سہی کوئی مگر اے زاہد جنسا شافع نہیں ہے مجھ کو وسیلہ ان کا
ذکر سے ٹیک لگی دل کو خدایا دآیا فکر سے ہوگیا آنکھوں کو نظارہ ان کا
بھیک لینے کو چلے آتے ہیں لاکھوں منگتا جس نے جو مانگا دیا کام ہے دینا ان کا
چاند سورج شب اسریٰ میں مقابل ہی نہ تھے منہ چھپا لیتے اگر دیکھتے تلوا ان کا
بو سے لیتا کبھی آنکھوں کو منور کرتا ہاتھ آتا جو کہیں نقشِ کفِ پا ان کا
آنکھ اٹھا کر نہ کبھی دیکھتے وہ جنت کی طرف اک نظر دیکھ لیا جس نے مدینہ ان کا
جان و دل کرتیں فدانقش قدم پہ ان کے دیکھ لیتیں جو کبھی حسن زلیخا ان کا
حشر والے یہ کہیں دیکھ کے محشر میں مجھے وہ چلا آتا ہے اک بندۂ شیدا ان کا
دی منادی نے ندا حشر میں اے مشتاقو دیکھ لو آج کہ بے پردہ ہے جلوہ ان کا
سب مہینوں میں مبارک ہے ربیع الاول جمعہ سے فضل میں برتر ہے دو شنبہ ان کا
میں رضا کا ہوں رضا ان کے تو میں ان کا ہوں یوں ہی رکھے مجھے اللہ تعالیٰ ان کا
تجھ کو کیا فکر ہے بخشش کی جمؔیل رضوی ہاتھ میں ہے ترے دامانِ معلّٰی ان کا
قبالۂ بخشش