کوئے طیبہ کی یاد جب آئے کیوں نہ پہلو میں دل تڑپ جائے
انکے ہونٹوں پہ گر ہنستی آئے چاند کی چاندنی بھی شرمائے
تیرے منگتا اے کملیا والے ہیں تیرے در پہ ہاتھ پھیلائے
اس کو اپنی خبر؟ معاذ اللہ نگۂ ناز جس پہ پڑجائے
دست رحمت کو یہ گوارہ کہاں خالی چوکھٹ سے کوئی پھر جائے
نوک غمزہ پہ کچھ ستارے ہیں ان کی فرقت کے یہ ہیں سرمائے
دل میں وہ آنکھ کے دریچوں سے مسکراتے ہوئے اتر آئے
آج پھرتے ہیں ان کے دیوانے تخت و تاج شہی کو ٹھکرائے
کیا کریں ہم فراق کے مارے جب مدینے کی یاد تڑپائے
دیکھ کر سبز جالیوں کا سماں گلشن خلد کیوں نہ للچائے
وہ محمدﷺ کا آستانہ ہے خود بخود سر جہاں پہ جھک جائے
رہ کے طیبہ سے دور جو گزرے ہم تو اس زندگی سے باز آئے
بول اٹھیں ان کی رحمتیں اخؔتر ہر مصیبت زدہ ادھر آئے