کوئی مقام نہیں ہے درِ نبی کی طرح
جو حاضری کی سعادت ہو حاضری کی طرح
یہ اور بات کہ ہم ان کو دیکھ ہی نہ سکیں
وہ ساتھ ساتھ ہیں آنکھوں کے نور ہی کی طرح
مسیح بن کے ہر اک غم شب ِ فراق آیا
تمہاری یاد بھی آئی تو زندگی کی طرح
جو ان کے ہیں انہیں منزل تلاش کرتی ہے
نہیں جو ان کے ہیں آوارہ اجنبی کی طرح
نہ دیکھا چشمِ فلک نے کوئی کریم ایسا
جو مہرباں ہو عدو پر مرے نبی کی طرح
کسی مقام سے دیکھو کسی طرح دیکھو
وہ ہر جگہ سے ہیں نزدیک روشنی کی طرح
انہیں کے لطف وکرم نے ہمیں سنبھال لیا
اگر گرے بھی سرِ راہ بے بسی کی طرح
غرور ِ زہد و عبادت کو یہ نہیں معلوم
کوئی عمل نہیں مقبول عاجزی کی طرح
نقاب اٹھاؤ دکھا دو تجلیاں اپنی
یہ رات ہجر کی چھٹ جائے تیرگی کی طرح
شراب عشق سے بڑھتی ہے تشنگی میری
نہیں ہے سیر کوئی میری تشنگی کی طرح
مقامِ سرور ِ عالم خدا کو ہے معلوم
کھڑے ہیں سدرہ پہ جبریل حیرتی کی طرح
نہ تھا نہ ہے نہ کبھی ہوگا کوئی ایسا کریم
سنبھال لے جو تری بندہ پروری کی طرح
وہ نام ہی تو بہار جہاں کا ضامن ہے
جو نام ہوتا ہے محسوس تازگی کی طرح
خدا کا ذکربھی ذکر ِ رسول ہے خاؔلد
شعارِ نعت ہمارا ہے بندگی کی طرح