کوئی بھی ہم کو نہ دے سکے گا جو خاص نعمت حضور دینگے
دکھائیں گے وہ جمال اپنا تو دیکھنے کا شعور دینگے
میں جب بھی جو چیز مانگ لوں گا مجھے یقین ہے، حضور دینگے
وہ اپنے لطف و کرم کا صدقہ ضرور دینگے ضرور دینگے
درِ نبی کا میں ہوں بھکاری رہے گی جھولی نہ میری خالی
کہیں بھی ان کو پکار لوں گا وہ بھیک نزدیک و دور دینگے
ہر اک پکارے گا نفسی نفسی نہ ہوگا کوئی کسی کا حامی
وہ اپنے دامن میں عاصیوں کو پناہ یوم ِ نشور دینگے
مٹاؤ عشق نبی میں ہستی قسم خدا کی بقا ملے گی!
ممات نا آشنا کریں گے حیات پر بھی عبور دیں گے
کریم سے فاصلہ کرم کا کبھی بھی ثابت نہ ہوسکے گا
وہ دیدہ ودل کا نور ہیں خود وہ دیدہ ودل کو نور دینگے
مجھے ہے قسمت پہ ناز خاؔلد فقیر کوئے حبیب ہوں میں
نہ جانے کیا کیا ملا ہے اب تک نہ جانے کیا کیا حضور دینگے