کبھی حمد ہو رہی ہے ، کبھی نعت ہورہی ہے اُٹھی ہوں نماز پڑھ کر ، مِری نعت ہورہی ہے میں کہاں ہوں اتنی قابل کہ رَقم ہو نعت اُن کی یہ تو فیض ہے اُنھِیں کا ، جبھی نعت ہورہی ہے یہ عطا کے سلسلے ہیں ، یہ جزا کے مرحلے ہیں جبھی نعت لکھ رہی ہوں ، تَبھی نعت ہورہی ہے وہی دلنشیں ، معطّر ، وہی باغِ سبز گنبد جسے دیکھ کر مہکتی ہُوئی نعت ہورہی ہے دَر ِ مصطفی پہ آ کر جونہی جالیوں کو چوما جو صدا بھی دل سے نکلی وہی نعت ہورہی ہے وہی ہیں مرا وسیلہ ، اُنھِیں کے وسیلے مانگا مری خالی جھولی بھردی ، نئی نعت ہورہی ہے ہے گراں مری طبیعت ، نہیں سانس مِیں روانی مری زندگی سنبھل جا ، ابھی نعت ہورہی ہے ہے ترے کرم سے یارب یہ سُخنوری بھی رحمت مری مغفرت کا باعث یہی نعت ہورہی ہے مری فکر مِیں جو اُتری ، ہے سؔبیلہ روشنی سی اُسی لَو سے لُوح ِ دل پر ، لکھی نعت ہورہی ہے
سؔبیلہ انعام صدیقی