کِس قدر حسِیں ہم نے مطمحِ نظر پایا جس طرف نظر اُٹھی تم کو جلوہ گر پایا
یادِ زلف و عارض کا لطف رات بَھر پایا بخت کے اندھیرے میں نور تا سحر پایا
اِک مقامِ رفعت ہے خاص ہر پیمبر کا ہے بلند تر سب سے آپﷺ کا مگر پایا
آگ اور پانی کا ارتباط تو دیکھو شمع دل کی جب بھڑکی آنکھ کو بھی تَر پایا
سر زمینِ کعبہ پر سر جہاں جہاں رکھّا تیری خاک پا پائی تیرا سنگِ در پایا
ہے وجودِ باری پر ذاتِ شاہِ والا کا معتبر دلائل میں معتبر پایا
دردِ دل نے اُٹھ اُٹھ کر اپنی ہی بلائیں لیں جب طبیبِ طیبہ کو اپنا چارہ گر پایا
ھَلْ اَتٰی تِرا رتبہ، قربِ حق تِری منزل عرش سربسجدہ ہے تیرا دیکھ کر پایا
دور رہ کے آقاﷺ سے کیا مزہ ہے جینے کا اب تو ایسے جینے سے یہ غلام بَھر پایا
اور دیکھتے جلوے اُن کی شانِ رحمت کے کیا کریں قیامت کا دن ہی مختصر پایا
مدحتِ شہِ دیں کا یہ صِلہ ہے اے اختؔر فیضِ کعب و حسّان کا نعت میں اثر پایا