چلو دیکھ لیں وہ حقیقتیں جنہیں دیکھنا بھی مثال ہے سوئے منتھیٰ جو چلے نبی ابھی امتی کا خیال ہے
لبِ مصطفےٰ وہاں ہل گئے تو گنہگار مچل گئے میرے امتی کو بچا خدا یہ نبی کا وقتِ وصال ہے
عطا جن کو حسنِ نبی ہوا تو زنانِ مصر پہ کرگئیں کٹیں سائے حسن میں انگلیاں یہ نبی کا عکسِ جمال ہے
اے اُمیہ تجھ کو خبر کہاں رگِ تن میں ہے نہیں خوں رواں یہاں دوڑتی ہیں محبتیں یہی کہتا عشقِ بلال ہے
یہ جو شمع و گل پہ بہار ہے یہ کرم ہے ان کے ہی خار کا یہ ہیں خارِ شہرِ حبیبِ جاں جنہیں چومنا بھی کمال ہے
جو نبی نے پوچھا کہ اے امیں کہیں دیکھا ہم سا روئے حسیں کہا طائرِ سدرہ نے برملا نہیں ان کی کوئی مثال ہے
در مصطفےٰ پہ پہونچ گئے ہوا زندگی کا حصول یوں پسِ دید عشق بھی بڑھ گیا ابھی واپسی کا ملال ہے
کریں مصطفےٰ کی اہانتیں سر بزم اس پہ ہمتیں کہا مجھ کو کیوں ہے جہنمی ارے وہ تو تیرا وبال ہے
کیا زروں نے دعوئے شمس جب ہوا ان کا گزر ابھی راہ سے تمہیں صدقۂ پا جو ملے فاراں کہیں لوگ یہ بھی ہلال ہے