چارہ گر ہے دل تو گھائل عشق کی تلوار کا کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہم زنگار کا
روکش خلد بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا حیف بلبل اب اگر لے نام تو گلزار کا
حسن کے بے پردگی پردہ ہے آنکھوں کے لئے خود تجلی آپ ہی پردہ ہے روئے یار کا
حسن تو بے پردہ ہے پردہ ہے اپنی آنکھ پر دل کی آنکھوں سے نہیں ہے پردہ روئے یار کا
اک جھلک کا دیکھنا آنکھوں سے گو ممکن نہیں پھر بھی عالم دل سے طالب ہے ترے دیدار کا
تیرے باغ حسن کی رونق کا کیا عالم کہوں آفتاب اک زرد پتا ہے ترے گلزار کا
کب چمکتا یہ ہلال آسماں ہر ماہ یوں جو نہ ہوتا اس پہ پر تو ابروئے سرکار کا
جاگ اٹھی سوئی قسمت اور چمک اٹھا نصیب جب تصور میں سمایا روئے انور یار کا
حسرت دیدار میں اور آنکھیں بہہ چلیں تو ہی والی ہے خدایا دیدۂ خوں بار کا
بھیک اپنے مرہم دیدار کی کردو عطا چاہئے کچھ منہ بھی کرنا زخم دامن دار کا
کام نشتر کا کیا ناصح نصیحت نے تری چیر ڈالا اور دامن زخم دامن دار کا
یوں ہی کچھ اچھا مداوا اس کا ہوگا بخیہ گر چاک کر ڈالوں گریباں زخم دامن دار کا
از سر بالین من بر خیزا اے ناداں طبیب ہوچکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا
فتنے جو اٹھے مٹا ڈالے روش نے آپ کی کیوں نہ ہو دشمن بھی قائل خوبی رفتار کا
چوکڑی بھولا براق باد پا یہ دیکھ کر ہے قدم دوش صبا پر اس سبک رفتار کا
کوئی دم کی دیر ہے آتے ہیں دم کی دیر ہے اب چمکتا ہے مقدر طالب دیدار کا
جب گرا میں بیخودی میں ان کے قدموں پر گرا کام تو میں نے کیا اچھے بھلے ہشیار کا
آبلہ پا چل رہا ہے بیخودی میں سر کے بل کام دیوانہ بھی کرتا ہے کبھی ہشیار
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہوگئے منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
آبلے کم مائیگی پر اپنی روئیں رات دن سوکھ کر کانٹا ہوا دیکھیں بدن ہر خار کا
وا اسی برتے پہ تھا یہ تتا پانی واہ واہ پیاس کیا بجھتی دہن بھی تر نہیں ہر خار کا
پاؤں میں چبھتے تھے پہلے اب تو دل میں چبھتے ہیں یاد آتا ہے مجھے رہ رہ کے چبھنا خار کا
پاؤں کیا میں دل میں رکھ لوں پاؤں جو طیبہ کے خار مجھ سے شوریدہ کو کیا کھٹکا ہو نوک خار کا
راہ پر کانٹے بچھے ہیں کانٹوں پر چلنی ہے راہ ہر قدم ہے دل میں کھٹکا اس رہ پر خار کا
خار گل سے دہر میں کوئی چمن خالی نہیں یہ مدینہ ہے کہ ہے گلشن گل بے خار کا
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لئے صحرا چمن گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بن خار کا
گل سے مطلب ہے جہاں ہو عند لیب زار کو گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گلزار کا
پھر سے ہوجائے نہ عالم میں کہیں طوفان نوح لو ابلتا ہے سمندر اپنی چشم زار کا
دھجیاں ہوجائے دامن فرد عصیاں کامری ہاتھ آجائے جو گوشہ دامن دلدار کا
کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربت دیدار کا
آئینۂ خانہ میں ان کے تجھ سے صدہا مہر ہیں مہر کس منہ سے کیا ہے حوصلہ دیدار کا
جلوہ گاہ خاص کا عالم بتائے کوئی کیا مہر عالم تاب ہے ذرہ حریم یار کا
ہفت کشور ہی نہیں چودہ طبق روشن کئے عرش و کرسی لامکاں پر بھی ہے جلوہ یار کا
زرد رو کیوں ہوگیا خورشید تاباں سچ بتا دیکھ پایا جلوہ کیا اس مطلع انوار کا
ہفت کشور ہی نہیں چودہ طبق زیرِ نگیں عرش و کرسی لامکاں کس کامرے سرکار کا
یہ مہ و خوریہ ستار چرخ کے فانوس ہیں شمع روشن میں ہے جلوہ ترے رخسار کا
مرقد نورؔی پہ روشن ہے یہ لعل شب چراغ یا چمکتا ہے ستارہ آپ کی پیزار کا
سامانِ بخشش