پیکر نور کی تنویر کے صدقے جاؤں
اپنے خوابوں کی میں تعبیر کے صدقے جاؤں
آش کار ہے تیرے حسن سے حق کی صورت
میرے آقا تیری تصویر کے صدقے جاؤں
نوازے گئے ہم کچھ ایسی ادا سے
غنی بن کے اُٹھے درِ مصطفی سے
طلب سے سوا بھیک دیتے ہیں آقا
بہت سارے ہے اُن کو ہر بے نوا سے
غم مصطفی حاصل زندگی ہے
مری زندگی ہے غم مصطفی سے
تمہارے کرم پر ہیں جن کی نگاہیں
ہیں واقف کرم کی ہراک انتہا سے
اُسے کیا ستائے گا خور شید محشر
ہے نسبت جسے دامن مصطفی سے
خدا تونہیں ہیں یہ ہم مانتے ہیں
جُدا بھی نہیں مانتے ہیں خدا سے
بشیرٌ نذیر ٌ سراجٌ منیراًٍ
منّور ہے ہر شے انہیں کی ضیا سے
بھریں گے شہ انبیاء میری جھولی
کرم سے سخا سے نگاہ ِ عطا سے
ہوا بے نیاز دو عالم یہ خاؔلد
تمہارے کرم سے تمہاری عطا سے