پہنچوں اگر میں روضۂ انوا ر کے سامنے سب حال دل بیاں کروں سرور کے سامنے
جالی پکڑ کے عرض کروں حال دل کبھی آنسو بہاؤں میں کبھی منبر کے سامنے
ہر دم یہ آرزو ہے مدینے کے چاند سے بستر فقیر کا ہو ترے در کے سامنے
جنت کی آرزو ہے نہ خواہش ہے حور کی ٹکڑا ملے زمیں کا ترے در کے سامنے
ہے آرزوئے دل کہ میں ہندوستاں کو چھوڑ کر بستر جماؤں روضۂ انوا ر کے سامنے
شاہ مدینہ طیبہ میں مجھ کو بلا تولیں لوٹوں گا خاک پاک پہ میں در کے سامنے
یوں میری موت ہو تو حیات ابد ملے خاک مدینہ سر پر ہو سردر کے سامنے
نکلے جو جاں تو دیکھ کے گنبد حبیب کا مدفن بنے تو روضۂ اطہر کے سامنے
منگتا کی کیا شمار سلاطین روزگار آتے ہیں بھیک لیتے ترے در کے سامنے
دونون جہاں کی نعمتِ کونین بانٹنا کچھ بات بھی ہو میرے تو نگر کے سامنے
یوں انبیا میں شاہ دوعالم ہیں جلوہ گر جیسے ہو چاند انجم و اختر کے سامنے
خوشوئے مشک زلف معنبر کے سامنے ایسی ہے جیسے خاک ہو گوہر کے سامنے
گلزار و باغ و گل کی نہ خواہش رہے تجھے اے عندلیب مرے گلِ ترکے سامنے
کیوں روکتے ہو خلد سے مجھ کو ملائکہ اچھا چلو تو شافع محشر کے سامنے
جاری ہے العطش کی صدا ہر زبان پر میلا لگا ہے جشمۂ کوثر کے سامنے
دکھلا رہے ہیں سوکھی زبانیں حضور کو پیاسے کھڑے ہیں ساقی کوثر کے سامنے
جو کوئی بھی کرے گا شفاعت وہ ان کے پاس یہ ہیں شفیع داور محشر کے سامنے
انکار کر نہ فضل نبی سے تو اے شقی جانا ہے تجھ کو داورِ محشر کے سامنے
ہے قادری جمیل کی یہ عرض آخری ہو قبر اس کی روضۂ اطہر کے سامنے
قبالۂ بخشش