نعت شہ والا
پڑھوں وہ مطلعِ نوری ثنائے مہرِ انور کا ہو جس سے قلب روشن جیسے مطلع مہر محشر کا
سر عرش علا پہنچا قدم جب میرے سرور کا زبان قدسیاں پر شور تھا اللہ اکبر کا
بنا عرش بریں مسند کف پائے منور کا خدا ہی جانتا ہے مرتبہ سرکار کے سرکار
دو عالم صدقہ پاتے ہیں مرے سرکار کے درکا اسی سرکار سے ملتا ہے جو کچھ ہے مقدر کا
بڑے دربار میں پہنچایا مجھ کو میری قسمت نے میں صدقے جاؤں کیا کہنا مرے اچھے مقدر کا
ہے خشک و تر پہ قبضہ جس کا وہ شاہ جہاں یہ ہے یہی ہے بادشاہ بر کا یہی سلطاں سمندر کا
مٹے ظلمت جہاں کی نور کا تڑکا ہو عالم میں نقاب روئے انور اے مرے خورشید اب سرکا
ضیا بخشی تری سرکا کی عالم پہ روشن ہے مہ و خورشید صدقہ پاتے ہیں پیارے ترے درکا
نگاہ مہر سے اپنی بنایا مہر ذروں کو الہٰی! نور دن دونا ہو مہر ذرہ پرور کا
طبق پر آسماں کے لکھتا میں نعت شہ والا قلم اے کاش مل جاتا مجھے جبریل کے پرکا
مقابل ان کے ذرہ کے ذرا سامنہ نکل آیا بہت شہرہ سنا کرتے تھے ہم خورشید محشر کا
جمال حق نما دیکھیں عیاں نور خدا پائیں کلیم آئیں ہٹا دیکھیں ذرا پردہ ترے در کا
نہ سایہ روح کا ہر گز نہ سایہ نور کا ہر گز تو سایہ کیسا اس جان جہاں کے جسم انور کا
وہ آئینہ اگر دیکھیں تو اپنے آپ کو دیکھیں کہاں ہے آئینہ میں اور کوئی ان کے برابر کا
محال عقل ہے تیرا مماثل اے مرے سرور تو ہم کر نہیں سکتا ہے عاقل تیرے ہم سرکا
خدا شاہد رضا کا آپ کی طالب خدا ہوگا تعالی اللہ رتبہ میرے حامی میرے یاور کا
دبا جاتا پِجا جاتا ہوں میں آقا دہائی ہے یہ بھاری بوجھ عصیاں کا مرے سرکا ذرا سرکا
بجھے گی شربت دیدار ہی سے تشنگی اپنی تمہاری دید کا پیاسا ہوں یوں پیاسا ہوں کوثر کا
زباں پر جم گئے کانٹے ہے سارا حلق خشک اپنا شہید کربلا کا صدقہ دو اک جام کوثر کا
کمی کچھ بھی خزانے میں تمہارے ہو نہیں سکتی تمہیں حق نے عطا فرما دیا جب چشمہ کوثر کا
جو آب و تاب دندان منور دکھ لوں نوریؔ مرا بحر سخن سر چشمہ ہو خوش آبِ گوہر کا
سامانِ بخشش