وہ یوں تشریف لاۓ ہم گنہ گاروں کے جھرمٹ میں مسیحا جیسے آجاتا ہے بیماروں کے جھرمٹ میں
مدد فرمائیے آقا پریشاں حال امت کی کہ شور المدد برپا ہے بے چاروں کے جھرمٹ میں
لرز جاتی ہے ہر موجِ بلا سے آج وہ کشتی رہا کرتی تھی جو خنداں کبھی دھاروں کے جھرمٹ میں
تلاشِ جذبہ ایماں عبث ہے کینہ کاروں میں وفا کی جستجو اور ان جفا کاروں کے جھرمٹ میں
حسین ابنِ علی کی آج بھی ہم کو ضرورت ہے گھرا ہے آج بھی اسلام خونخواروں کے جھرمٹ میں
انہیں کا عکسِ رخ جلوہ فگن ہے ورنہ اے تحسیں چمک ایسی کہاں سے آ گئی تاروں کے جھرمٹ میں
کلام: صدر العلماء مظہر مفتئی اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد تحسین رضا خاں صاحب علیہ الرحمہ