وہ یوں تشریف لائے ہم گنہ گاروں کے جھرمٹ میں مسیحا جیسے آجاتا ہے بیماروں کے جھرمٹ میں
مدد فرمائیے، آقاﷺ! پریشاں حال امّت کی کہ شورِ ’’المدد‘‘ برپا ہے بے چاروں کے جھرمٹ میں
لرز جاتی ہے ہر موجِ بلا سے آج وہ کشتی رہا کرتی تھی جو خنداں کبھی دھاروں کے جھرمٹ میں
تلاشِ جذبۂ ایماں عبث ہے کینہ کاروں میں وفا کی جستجو اور ان جفا کاروں کے جھرمٹ میں
حُسین ابنِ علی کی آج بھی ہم کو ضرورت ہے گھرا ہے آج بھی اسلام خوں خواروں کے جھرمٹ میں
اُنھیں کا عکس ِ رخ جلوہ فگن ہے ورنہ، اے تحسیؔں! چمک ایسی کہاں سے آ گئی تاروں کے جھرمٹ میں