وہ چھائی گھٹا بادہ بارِ مدینہ
پیئے جھوم کر جاں نثارِ مدینہ
وہ چمکا وہ چمکا منارِ مدینہ
قریب آرہا ہے دیارِ مدینہ
نہا لیں گنہ گار ابرِ کرم میں
اُٹھا دیکھئے وہ غبارِ مدینہ
خدا یاد فرمائے سوگندِ طیبہ
زہے عظمت و افتخارِ مدینہ
اگر دیکھے رضواں چمن زارِ طیبہ
کہے دیکھ کر یوں وہ خارِ مدینہ
مدینے کے کانٹے بھی صد رشکِ گل ہیں
عجب رنگ پر ہے بہارِ مدینہ
نہیں جچتی جنت بھی نظروں میں ان کی
جنہیں بھا گیا خار زارِ مدینہ
مری جان سے بھی وہ نزدیک تر ہیں
وہ مولائے ہر بے قرارِ مدینہ
کروں فکر کیا میں غمِ زندگی کی
میں ہوں بندۂ غم گسارِ مدینہ
چلا دورِ ساغر مئے ناب چھلکی
رہے تشنہ کیوں بادہ خوارِ مدینہ
چلا کون خوشبو لٹاتا کہ اب تک
ہے مہکی ہوئی رہ گذارِ مدینہ
سحر دن ہے اور شامِ طیبہ سحر ہے
انوکھے ہیں لیل و نہارِ مدینہ
بلا اخترِؔ خستہ جاں کو بھی در پر
میں صدقے ترے شہر یارِ مدینہ