وہ معلّم وہ اُمی لقب آگیا
رونق دو جہاں کا سبب آگیا
چھٹ گئیں کفر و باطل کی تاریکیاں
ہر ضیا لے کے ماہ ِ عرب آگیا
اسوۂ مصطفی جس نے اپنا لیا
اس کو جینے کا لاریب ڈھب آگیا
روح پر چھا گیا ایک کیف اتم
آپ کا نام جب زیر لب آگیا
یہ بھی ان کی غلامی کا احسان ہے
مجھ سے نادان کو کچھ ادب آگیا
کتنی حساس ہے ان کی چشم کرم
ان کی نظروں میں ہر جاں بلب آگیا
ہے وہ امت حقیقت میں خیرِامم
جس کے حصے میں محبوبِ رب آگیا
آپ آئے تو عصمت مآبی بڑھی
ہر طرف انقلاب اک عجب آگیا
ہل گئی جو تھی بنیاد ِ غیض و غضب
جب زمیں پر وہ امی لقب آگیا
آسماں تک کھلے راستے فکر کے
نام جب آپ کا زیر لب آگیا
توڑ کر رکھ دیا ہر غرور ِ نسب
ایسا ہاوئِ عالی نسب آگیا
وہ نگاہوں میں ہیں او رکوئی نہیں
جو سمجھ میں نہ آیا تھا اب آگیا
سر جھکائے کھڑا تھا حجاب اٹھ گئے
کام خاؔلد کے حُسن طلب آگیا