وہاں کی فقیری ہے رشک امیری وہیں پر بسر ہو مری زندگانی اے اللہ سب کے مقدر میں لکھ دے وہ طیبہ کی گلیاں وہ زمزم کا پانی
جو ظالم تھے ہر ظلم ان سے چھڑایا کہ آدم کے بیٹوں کو جینا سکھایا وہ محتاج جن کے نہیں تھے ٹھکانے گلے سے لگایا انہیں مصطفی نے جہاں پر غریبوں کو عزت ملی ہے یتیموں نے پائی جہاں شادمانی وہ طیبہ کی گلیاں وہ زمزم کا پانی
وہاں چار سو رحمتوں کے اجالے وہاں جا کے آتے ہیں تقدیر والے وہاں کا سویرا کرم کی زمانت وہاں ایک پل میں بدلتی ہے قسمت وہ ایسی زمیں آسمان جس کو چومے جہاں سے نکلتا ہے زمزم کا پانی وہ طیبہ کی گلیاں وہ زمزم کا پانی
ہے لمبا فسانہ ہے لمبی کہانی مجھے خود ہی کہنا ہے اپنی زبانی کہاں تک جدائی کے سپنے اٹھاؤں کہاں تک میں حالات اپنے بتاؤں اے باد صبا ساتھ اپنے اڑاکر وہیں مجھ کو لے چل بڑی مہربانی وہ طیبہ کی گلیاں وہ زمزم کا پانی
خدا وندا سب پر یہ احسان کر دے کبھی سب کو کعبہ کا مہمان کر دے در مصطفی پر یہ پلکیں بچھائیں کبھی بھی وہاں سے یہ واپس نہ آئے اسی دھن میں اسد کا آئے بڑھاپا اسی عارضو میں کٹے یہ جوانی وہ طیبہ کی گلیاں وہ زمزم کا پانی