وہ شان پائی کے نبیوں میں انتخاب ہوئے
وہ حُسن پایا کہ اپنا ہی خود جواب ہوئے
پڑی ہے جِن پہ نگاہِ کرم شعار تری
وہ ذرّئے طور ہوئے رشکِ آفتاب ہوئے
تمہارا نام مصیبت میں سے کے کام آیا
خطا معاف ہوئی دور سب کے عذاب ہوئے
ہے واسطہ کرم بے حساب سے پھر بھی
یہ مانا جرم تو عاصی سے بے حساب ہوئے
راہِ نجات ملی سے نہ زِندگی کا سکوں
جو اُن کے در سے پھرے در بدر خراب ہوئے
کوئی نظیر نہ کوئی مِثال ملتی ہے
غلام آپ کے سار ے ہی لا جواب ہوئے
وہ تاج بخشِ زمانہ ہوئے خدا کی قسم
درِ رسول سے جو لوگ فیض یاب ہوئے
جنہیں پناہ ملی دامنِ محمد میں
وہ خوش نصیب دو عالم میں کامیاب ہوئے
شمار میں نہیں آئیں گی نیکیاں خاؔلد
مرے گناہ اگر داخل ِ ثواب ہوئے