وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کےلیے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک مَلک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی اُن کے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئنے تھے
نئی دلھن کی پھبن میں کعبہ نکھر کےسنورا، سنور کے نکھرا حجر کے صدقےکمرکےاِک تل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
نظر میں دولھا کے پیارے جلوے حیا سے محراب سر جھکائے سیاہ پردے کے منھ پر آنچل تجلّیِ ذات بحت سے تھے
خوشی کےبادل امنڈ کے آئے دلوں کے طاؤس رنگ لائے وہ نغمۂ نعت کا سماں تھا حرم کو خود وجد آ رہے تھے
یہ جھوما میزابِ زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے
دُلھن کی خوشبو سے مست کپڑے نسیمِ گستاخ آنچلوں سے غلافِ مشکیں جو اڑ رہا تھا غزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حُسنِ تزئیں وہ اونچی چوٹی وہ ناز و تمکیں! صبا سے سبزے میں لہریں آتیں دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لباس آبِ رواں کا پہنا کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پر داغ ملگجا تھا اٹھا دیا فرش چاندنی کا ہجومِ تارِ نگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادلے تھے
غبار بن کر نثار جائیں کہاں اب اُس رہ گزر کو پائیں ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جانِ پُر غم دکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم جب اُن کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولھا بنا رہے تھے
اتار کر ان کے رخ کا صدقہ یہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک رہا ہے وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے نہانےمیں جو گرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے
بچا جو تلووں کا ان کےدھوون بنا وہ جنّت کا رنگ و روغن جنھوں نے دولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
خبر یہ تحویلِ مہر کی تھی کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی وہاں کی پوشاک زیبِ تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلیِ حق کا سہرا سر پر صلاۃ و تسلیم کی نچھاوڑ دو رویہ قدسی پرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نا مُرادی کے دن لکھے تھے
ابھی نہ آئے تھے پشتِ زیں تک کہ سر ہوئی مغفرت کی شلک صدا شفاعت نے دی مُبارک گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غزالِ دم خوردہ سا بھڑکنا شعاعیں بکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
ہجومِ اُمّید ہے گھٹاؤ مُرادیں دے کر انھیں ہٹاؤ ادب کی باگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غلغلے تھے
اٹھی جو گردِ رہِ منوّر وہ نور برسا کہ راستے بھر گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل اُمنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
سِتم کیا کیسی مت کٹی تھی قمر وہ خاک اُن کے رہ گزر کی اٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے
بُراق کےنقشِ سُم کے صدقے وہ گل کھلائے کےسارے رستے مہکتے گلبن لہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہا رہے تھے
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سرّ عیاں ہوں معنیِ اوّل آخر کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا نجوم و افلاک جام و مینا اجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب الٹے وہ مہرِ انور جلالِ رُخسار گرمیوں پر! فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی تپکتے انجم کے آبلے
یہ جوششِ نور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا صفائے رہ سے پھسل پھسل کر ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وحدت کہ دُھل گیا نامِ ریگِ کثرت فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عرش و کرسی دوبلبلے تھے
وہ ظِلِّ رحمت وہ رخ کے جلوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے سنہری زربفت اودی اطلس یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چلا وہ سروِ چماں خراماں نہ رُک سکا سدرہ سے بھی داماں پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اِک قدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی سواری دولھا کی دور پہنچی برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے روح الامیں کے بازو چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو رکاب چھوٹی امید ٹوٹی نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
روش کی گرمی کو جس نے سوچا دماغ سے اِک بھبوکا پھوٹا خرد کے جنگل میں پھول چمکا دَہَر دَہَر پیڑ جل رہے تھے
جِلو میں جو مرغِ عقل اڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے وہ سدرہ ہی پر رہے تھےتھک کر چڑھا تھا دم تیور آ گئے تھے
قوی تھے مرغانِ وہم کے پر اڑے تو اڑنے کو اور دم بھر اٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
سُنا یہ اتنے میں عرشِ حق نےکہ لے مبارک ہوں تاج والے وہی قدم خیر سے پھر آئے جو پہلے تاجِ شرف ترے تھے
یہ سن کے بے خود پکار اٹھا نثار جاؤں کہاں ہیں آقا پھر ان کے تلووں کا پاؤں بوسہ یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلیٰ گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا یہ آنکھیں قدمو سے مل رہا تھا وہ گرد قربان ہو رہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلین جھلملائیں حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منھ اپنا دیکھتے تھے
یہی سماں تھا کہ پیکِ رحمت خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت تمھاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے محمد قریں ہو احمد قریب آ سرورِ ممجد نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
تَبَارَکَ اللہُ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرَانِیْ کہیں تقاضے وصال کے تھے
خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
سُراغِ اَین و مَتٰی کہاں تھا نشانِ کیف و الیٰ کہاں تھا نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے
اُدھر سے پیہم تقاضے آنا اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رحمت اُبھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجھکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رکتے جو قراب انھیں کی روش پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا تنزّلوں میں ترقی افزا دَنٰی تَدَلّٰی کے سلسلے تھے
ہوا نہ آخر کہ ایک بجرا تموّجِ بحرِ ہُوْ میں اُبھرا دَنٰی کی گودی میں ان کو لے کر فنا کے لنگر اٹھا دیے تھے
کسے ملے گھاٹ کا کنارہ کدھر سے گزرا کہاں اتارا بھرا جو مثلِ نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے
اٹھے جو قصرِ دَنٰی کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ و گل کا فرق اٹھایا گرہ میں کلیوں کی باغ پھولے گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوطِ واصل کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں بھنور کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر اُسی کے جلوے اُسی سےملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
اُدھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں اِدھر سے انعامِ خسروی میں سلام و رحمت کے ہار گندھ کر گُلوئے پُر نور میں پڑے تھے
زبان کو انتظارِ گفتن تو گوش کو حسرتِ شنیدن یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برجِ بطحا کا ماہ پارہ بہشت کی سیر کو سدھارا چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
سُرورِ مقدم کی روشنی تھی کہ تابشوں سے مہِ عرب کی جناں کےگلشن تھے جھاڑ فرشی جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طرب کی نازش کہ ہاں لچکیے ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے یہ جوشِ ضِدّین تھا کہ پودے کشاکشِ ارّہ کے تلےتھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کر کے ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے
نَبِّیِ رحمت شفیعِ اُمّت رضؔا پہ للہ ہو عنایت اِسے بھی اُن خلعتوں سے حصّہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبولِ سرکار ہے تمنّا نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے
حدائقِ بخشش
Woh sarwar e kishwar e risalat jo arsh per jalwah gar huye thay Naye nirale tarab kay saaman Arab ke mehman kay liye thay.
When the supreme Prophet went to his journey to the Divine Throne of Allah, There were very special arrangements made to welcome the unique guest from Arabia’
Verse 2: Bahar hai shadiyan mubarak chaman ko aabadiyan mubarak Malak falak apni apni lay main yeh ghur ana dil ka boltay thay.
It was springtime; there were echoes of salutary greeting in the dales; Then Angels and the skies were singing happy songs in their own way like the nightingales.
Verse 3: Wahan falak per yahan zameen main rachi thi shaadi machi thi dhoomein Udhar say anwar hastay aatay idhar say anwaar ooth rahay they.
On the Heavens above and the earth below there was festive celebration; The dazzling lights came down smiling and the fragrant perfumes went up on this occasion.
Verse 4: Yeh joot parti thi unkay rukh ki kay arsh tak chandni thi chhatki Woh raat kiya jagmaga rahi thi jagah jagah nasab aainay they.
The light emitted by his radiant face created a moonlight near Allah’s throne; The night was resplendently lit through a multitude of mirrors and brightly shone.
Verse 5: Nayi dulhan ki phaban main Kaaba nikhar kay sanwara sanwar kay nikhra Hajar key sadqay kamar key eik til main rang lakhoon banao key they.
The Kaaba dressed herself most immaculately to welcome her bridegroom with pride; The black stone looked like a beautiful mole on her charming body’s side.
Verse 6: Nazar main dulha key pyaray jalway haya say mehrab sir jhukaye Siyah parday kay moun per aanchal tajaliye zaat e bahat say thay.
With bashful looks the niche lowered her upright head in sheer delight; The covering black curtain gracefully moved, saturated with the Divine Light,
Verse 7: Khushi kay badal umand kay aaye diloon kay taoos rang laye Woh naghma e naat ka samaan tha Haram ko khud wajd aa rahe thay.
The clouds spontaneously advanced and the hearts engaged in a peacock dance; To honour the Prophet in a creative stance the Kabaa gazed at him in a lyrical trance.
Verse 8: Yeh jhooma Mizab e zar ka jhoomer kay aa raha kaan per dhalak ker Phuhar barsi to moti jhar ker Hatim ki gaud mein bharay they.
The golden ornaments of Meezaab gently moved towards the ear from her forehead; When it drizzled, the raindrops gathered like pearls on Hateem’s welcoming bed.
Verse 9: Dulhan ki khushboo say mast kapray nasim e gustakh aanchloon say Gilaf e mushkeen jo Oord raha tha ghazal naafe bassa rahay thay.
The bride’s body-fragrance intoxicated the surrounding breeze and her own garment; When the perfumed curtain furled, the gazelles rushed to store its unique scent.
Verse 10: Pahardiyoon ka woh husn e Taz’een woh oonchi choti woh nazo tamqeen Saba say sabzah main lehrein aateen dupatay dhani chunay huye thay.
The happy hills smiled and their elegant tops stood out in space; Like a maiden’s head-scarf the shoots of green grass rhythmically moved with grace.
Verse 11: Naha kay nehroon nay woh chamakta libas aabay rawan ka pehna Kay mauj e chardiyaan theen dhaar lachka habab e tabaan kay thal takay thay.
The fresh-looking and well-clad rivers ran through the well-trimmed bowers; It was a rare visual feast of stormy waves, rushing waterfalls and bubbling showers.
Verse 12: Purana purdag malgaja tha utha diya farsh chandni ka Hajoom e taringah say kosoon qadam kadam farsh badily thay.
The old white-floor of moonlight was removed as it was not satin-free; The new green-floor consisted of gardens and flowers as far as one could see.
Verse 13: Ghubar ban ker nisaar jayein kahan ab uss rah guzar ko payein Hamaray dil huriyoon ki aankhein farishtoon kay per jahan biche thay.
More precious to us than our lives! Where is the Blessed Prophet’s blessed pathway, On which our humble hearts, the heavenly damsels and wings of the angels lay.
Verse 14: Khuda hee day sabr jaan e purgham dikhaoon kyun kar tujhay woh a’alam Jab unko jhurmat main lakay qudsi jinnah ka dulha bana rahay thay.
The moment was indescribably exciting, when the angels, pure and wise, Gathered round him and dressed him as the bridegroom of Paradise.
Verse 15: Utar ker unkay rukh ka sadqa yeh noor ka but raha tha bada Kay chand suraj machal machal ker jabeen ki khairat mangtay thay.
The light emitted by his face was distributed among the beggars with generosity. The moon and the sun begged most eagerly for this bright charity.
Verse 16: Wohi to ab tak chalak raha hai wohi to joban tapak raha hai Nahanay may jo gira tha pani katoray taroon nay bhar liye thay.
The same luminous water still shining in their bright path, Which the stars had gathered in their cups from his overflowing bath.
Verse 17: Bacha jo talwoon ka unkay dhouwan bana woh Jannat ka rang o roghan Jinhoon nay dulha ki payi utran woh phool gulzar e noor kay thay.
With the surplus sole-washed water Paradise was painted bright, Those who wore his used-clothes became flowers, of the garden of light.
Verse 18: Khabar yeh tehweelay maher ki thi kay rut sunhani ghadi phiray gee Wahan ki poshak zay-bay tan ki yahan ka jorha badha chukay thay.
The sun revealed the news that Allah Almighty’s beloved Messenger Was soon expected to come back after meeting his Creator.
Verse 19: Tajaliy e haq ka sehra sar per salat o tasleem ki nichawar Do roya qudsi paray jama kar kharhay salami kay waastay thay.
The wedding crown of Allah’s light was on his head amidst a blissful prayer; The Angels stood on both sides of his way to present a salute of honour.
Verse 20: Jo hum bhi waan hotay khaq e gulshan lipat kay qadmoon say ley tay utran Magar karein kiya naseeb main to yeh namuradi kay din likhay thay.
Had we been there, we would have sought for some charity; How could that happen, when we were destined to live this life of poverty?
Verse 21: Abhi na aaye thay pusht e zeen tak kay sir hui maghfirat ki shallak Sada shafa’at nay di mubarak! gunaah mastana jhoomtay thay.
He had hardly sat on the saddle that the journey of salvation ended at a glance; The salvation itself congratulated him and the sins engaged themselves in a dance.
Verse 22: Ajab na tha rakhsh ka chamakna gizal e dam khurdasa bharhakna Shuaein bukay urha rahi theen tadapte ankhoon pay saieqay thay.
It is understandable why the Prophet’s horse startled like a frightened deer; The rays of light dazzled his eyes and the lightning flashed too near.
Verse 23: Hujum e umeed hai ghatao muradein day kar inhein hatao Adab ki baagein liye badhao malaika may yeh ghul ghule thay.
The clouds gave alms to the beggars and made sure there was enough room; The angels held the reigns respectfully and welcomed the bridegroom.
Verse 24: Uthi jo garde rahe munawar woh noor barsa kay raaste bhar Ghiray thay badal bharay thay jal thal umand kay jangle ubal rahay thay.
The dust of the luminous path rose up like the clouds of light; The space overflowed with rain and the whole way was exceptionally bright.
Verse 25: Simat kiya kaisi mat kathi thi qamar! woh khak unkay rah guzar ki Utha na laya kay miltay miltay
0 moon! You should have brought some dust from the Prophet’s way; You would have got rid of your spots by rubbing it on them for a day.
Verse 26: Burraq kay naqsh o sum kay sadqe woh gul khilaye kay saray rastey Mehaktay gulban lehakte gulshan hare bhare lahlaha rahe thay.
The hoff-prints of the ‘Buraq’ filled the entire way with flowers; In no time all over the place there were fragment orchards and bowers.
Verse 27: Namaz e Aqsa main tha yehi seer ayan houn ma’ani awwal akhir Key dast basta hain pichey hazir jo salatanat aagay kar gaye thay.
The divine wisdom of ‘Aqsa’ prayer was to unfold the secret of first and last; All the Prophets prayed behind him, though they had actually lived in the past.
Verse 28: Yeh unki aamad ka dabdaba tha nikhar her shaiy ka ho raha tha Nujoom o aflak jam o mina ujaltay thay khangaltey they.
The dignity of his arrival brightened up everything immaculately; The stars, the skies, the cups and the containers cleaned smartly.
Verse 29: Naqab ultay woh mehr e anwar jalal o rukhsar garmiyoon per Falak ko hebat say tap charhi thi tapaktay anjum kay aablay tha.
When he advanced, his unveiled sun-like face shone with glamour; The sky felt over-awed and the stars became dimmer and dimmer.
Verse 30: Yeh joshay noor ka asar tha key aabay gohar qamar qamar tha Sifaey rah say phisal fisal kar sitare qadmon pay laut’tay thay.
The overflowing light filled the path with luminous water; The stars slipped time and again and fell at the feet of Allah’s messenger.
Verse 31: Barha yeh lehra kay behr o hidat key dhul gaya naam e raige kasrat Falak key teloon ki kiya haqeeqat yeh arsh o kursi do bulbule thay.
The ocean of Unity surged forward and washed sands of Diversity; Forget the dunes of the sky, just two bubbles were ‘Allah’s Arch and Kursi’
Verse 32: Woh zill e rehmat woh rukh key jalwe ke taare chupte na khilne paate Sunehri zarbaft udi atlas yeh than sab dhoop chaoon ke the.
His sun-like merciful face eclipsed the stars that shine; The moonlight and starlight looked like shadows in his sunshine.
Verse 33: Chala woh serve e chamaan khiramaan na ruk saka sidra say damaan Palak jhapakti rahi woh kab kay sab aeno aan say guzar chuke thay.
When the unique bridegroom advanced even the lote tree failed to hold him back; In the wink of an eye he went beyond this and that range of the track.
Verse 34: Jhalak see eik qudsiyoon per aayi hawwaa bhi daman ki phir na payi Sawari dulha ki dur pohnchi barat main hosh hi gaye thay.
The angels felt that a glimpse had flashed through their sight and mind; The bridegroom went far ahead but his companions were left behind.
Verse 35: Thakay thay ruhul amin key bazu chuta woh daman kahan woh pehloo Rikab chooti ummeed tuti nigah e hasrat key walwaley thay.
Gabriel’s wings got tired and he could not accompany the divine guest; The Prophet’s stirrup slipped out of his hands though he tried to hold it to his best.
Verse 36: Ravish ki garmi ko jis ney socha dimag say eik bhabuka phoota Khir’ad key jungle main eik phool chumka dahar daher paerdh jal rahe thay.
He, who reflected on the Prophet’s speed suddenly found his mind aflame; All the trees in the woods of intellect started burning with shame.
Verse 37: Jiloo main jo murgay a’qal uray thay ajab booray haloon girtay partay Woh sidrah hee per’rahay thay thak kar charha dam tewar aa gaye thay.
The birth of intellect flying ahead of the Prophet ended in a miserable plight; They could not go beyond the lote tree in their insurmountable flight.
Verse 38: Qavi they murgan e waham kay per uray to urdnay ko aur dam bhar Utha’ee seenay ki aisi thokar kay khoonay andesha th’oo’ktay thay.
The strong-winged birds of superstition flew but soon lost their breath; They sustained a fatal blow on their chests and fell down bleeding to death.
Verse 39: Suna yeh itnay mein arsh e haq nay kay lay mubarak ho taaj waley Wohi qadam khair say phir aaye jo pehle taaj e sharaaf tere thay.
At the moment of Allah’s throne heard the angels raising a salutary uproar; How nice to welcome back the same auspicious feet, which graced us before.
Verse 40: Yeh sunkay bay khud pukar utha nisar jaoon kahan hain aaqa Phir unkay talwoon ka paoon bosa yeh meri aankhon kay din phire thay.
On hearing this, the devotee exclaimed, “Where is my master? How lucky that my eyes will again kiss the soles of Allah’s Messenger!”
Verse 41: Jhuka tha mujre ko arsh e aala gire they sajde may bazme bala Yeh aankhein qadmoon say mal raha tha woh girde qurbaan ho rahay thay.
Allah’s throne knelt down to welcome, the angels fell again into a prostration’ It rubbed his eyes on his feet; they showed their utmost veneration.
Verse 42: Ziyaein kuch arsh per yeh aaein kay sari qindileen jagmagayeen Huzoor e khurshid kiya chamaktay chairagh moun apna dekh tay thay.
Such a bright light shone that all the candles flickered; The lamps felt ashamed when the ‘sun’ itself appeared.
Verse 43: Yehi sam’an tha kay paikay rehmat khabar yeh laya kay chaliye Hazrat Tumhari khatir kushada hain woh jo kalim per band rastaay thay.
In this atmosphere the Messenger of Mercy came respectfully to say; “Those ways are open for you today, which were closed for Moses one day.”
Verse 44: Badh aie Muhammad [ Sallallahu ‘Alayhi Wasallam ] qareen ho Ahmed [ Sallallahou Alayhi Wasallam ] qareeb aa sarwar e mamajad Nisar jaoon yeh kiya nida thi yeh kiya samaan tha yeh kiya mazay thay.
“Move forward, O Muhammed! [Peace Be Upon Him ] Come nearer, O Ahmed, My beloved.” What a lovely call it was and what a joyful atmosphere it created!
Verse 45: Tabarakallah yeh shan teri tujhi ko zaiba hai bay niyazi Kahin to woh josh e lan-tarani kaheen takazay visal kay thay.
“O Allah, all praise be to You; You are undoubtedly carefree; Once Moses insisted to see you; here You became anxious to see.”
Verse 46: Khirad say keh do kay sir jhukaye lay gumaan say guzray guzarnay walay Pare hain yahan khud jaihat ko laalay kisay bataye kidhar gaye thay.
Let intellect bow its head, because it has traveled beyond imagination; Direction itself is baffled and it cannot dare to imagine his destination.
Verse 47: Surag aino mataa kahaan tha nishan e kaifo illa kahan tha. Na koi rahi na koi sathi naa sang e manzil naa merhalay thay.
Who could answer where or when? Who could tell us what or how; There was neither any companion nor any milestone between them and now.
Verse 48: Udar say payham taqazay aana idhar say mushkil qadam barhana Jalal o haibat ka saamna tha jamalo rehmat ubhartay thay.
Allah greatly encouraged him though his pace was humbly slow; Grandeur checked him but Grace inspired him steadily to go.
Verse 49: Barhay to lekin jhee-jhaktay dartay haya say jhuktay adab say ruktay Jo qurb unhi ki ravish pay rakhtay to lakhoon manzil kay fasilay thay.
He advanced hesitantly with feelings of respect and humility; Allah led him on this endless journey with an exceptional agility.
Verse 50: Per unka barhna to naam ko tha haqeeq’tan fail tha udhar ka Tanazuloon mein taraki afza dana tadalla key silsilay thay.
The Prophet’s motion was nominal; it was all done by divine will; Whenever he slowed down, Allah commanded him to come nearer still.
Verse 51: Hua yeh aakhir kay aik bajra tamojay bahrey hoo mein ubhra Dana ki godi mein unko lekar fana kay langar utha diye thay.
At last a barge emerged from the ocean of His Personality; It took him near Allah’s lap and untied the anchor of morality.
Verse 52: Kisay milay ghat ka kinara kither say guzra kahan utra Bhara jo misle nazar tarara woh apni aankhoon say khud chupay thay.
Who could see this ocean’s shore? It was all speed and surprise; He leapt like sight and became hidden from his own eyes.
Verse 53: Uthay jo Qasray dana kay parde koi khabar dey to kiya khabar day Wahan to ja hee nahin duee ki na keh kay woh bhi na thay aray thay.
When the secrets of Nearness were unveiled, who knows what the Reality was? There was no room for otherliness; don’t say he wasn’t; he really was.
Verse 54: Woh baag kuch aisa rang laya kay guncha o gul ka faraq uthaya Girah mein kal’liyoon ki baag phoolay guloon kay takmay lagay huay thay.
The garden so blossomed that the buds and the roses looked very charming The unblown and the fully-blown flowers became equally inviting.
Verse 55: Muhito markaz mein faraq mushkil rahe na faasil khutoot e wasil Kamaan e hairat mein sir jhukaye ajeeb chakar mein da’eray thay.
To differentiate between the circumference and the centre was difficult; The arches bowed and the circles felt giddy as a result.
Verse 56: Hijab uhnay mein lakhoon parde har aik parday main lakhon jalway Ajab ghari thi kay waslo furqat janam kay bichray galay milay thay.
Millions of veils disappeared revealing endless oceans of luminosity; It was strange Union of Lights which symbolised diversity in Unity.
Verse 57: Zabanein sukhi dikha kay mojein tarap rahi thien kay pani paein Bhanwar ko yeh zofay tashnagi that kay halqay aankhoon mein par gaye thay.
The waves showed their parched tongues and wriggled in search of water; The whirlpool fainted with thirst and its eye stared farther and farther.
Verse 58: Wohi hai awwal wohi hai aakhir wohi hai batin wohi hai zahir Usi kay jalway usi say milnay usi say uski taraf gaye thay.
He is the First and the Last; He lives in the Absence and the Presence; His own hidden light went to see His own visible existence.
Verse 59: Kaman e imakan kay jhutay nukto tum awwal akhir ki phair mein ho Muhit ki chal say to pucho kidhar say aaye kidhar gaye thay.
O dots on the arch of probability! Why do you guess the first and last? Ask the track of the circumference, where did the process begin in the past?
Verse 60: Udhar say theen nazray shah namaz’ain idhar say inaam e khusravi mein Salam o Rehmat kay haar gundh ker glue e pur noor mein paray thay.
Here Allah gave His beloved Messenger a gift of formal and ritual prayers, He also honoured him with garlands of durood, and salaam’s regal flowers.
Verse 61: Zabaan ko intezar guftan to gos ko hasrat e shunidan Yahan jo kehna tha keh liya tha jo baat sun’ni thi sun chukay thay.
The tongue was anxious to speak and the ear was eagerly to go very near; Mysteriously and silently he said what he wanted to say and heard what he wanted to hear.
Verse 62: Woh burj e batha ka mahpara bahishat ki sair ko Sidhara Chamak pay tha khuld ka sitara kay iss qamar kay qadam gaye thay.
Then the distinguished guest was taken to Paradise soon; The stars of Paradise felt honoured to see the glory of their Arabian moon.
Verse 63: Suroor e maqdam ki roshni thi kay tabishoon say mah e arab ki Jina kay gulshan thay jhaar farshi jo phool thay sab kanwal banay thay.
The Arabian moon was accorded a glorious welcome joyfully; All the heavenly flowers became daffodils and the chandeliers shone more brightly.
Verse 64: Tarab ki nazish kay haan lachakiye adab woh bandish kay hill na sakiye Yeh josh e ziden tha keh poday kasha kish e arah kay talay thay.
The spirit of ecstasy edged him on but the sense of humility checked him modestly; A real conflict of emotions: “To advance or just to stay there reverently.”
Verse 65: Khuda ki qudrat keh chand haq kay karoroon manzil mein jalwa kar kay Abhi na taroon ki chaoon badli keh noor kay tarkay aa liye thay.
Allah’s omnipotence be praised! His truthful moon shone at millions of stations on his way; Even when he returned home by dawn before the starlight faded away.
Verse 66: Nabi E Rehmat Shafi E Ummat RAZA pay Lillah ho inayat Isay bhi unn khal’atoon say hisa jo khas rehmat kay waan bate thay.
Take pity on Raza, O our Intercessor and Allah’s Messenger of Mercy! Grant him a small share from the gifts distributed during the Meraj journey.
Verse 67: Sana e Sarkar hai wazifa qabool e Sarkar hai taman’na Na shayari ki hawas na parwah radi thi kiya kaisay kafiye thay.
My mission is to praise the Prophet; my aim is to achieve his pleasure; The poetic rhymes and refrains have no value; Mustapha’s Love is my true treasure.