وہ حسن ہے اے سیدابرار تمہارا اللہ بھی ہے طالب دیدار تمہارا
محبوب ہو تم خالق کل مالک کل کے کیوں خلق پہ قبضہ نہ ہوسرکار تمہارا
کیوں دید کے مشتاق نہ ہوں حضرت یوسف اللہ کا دیدار ہے دیدار تمہارا
اللہ نے بنایا تمہیں کو نین کا حاکم اور رکھا لقب احمد مختار تمہارا
بگڑے ہوئے سب کام سنبھل جائیں اسی دم دل سے کوئی گرنام لے اک بار تمہارا
امت کے ہو تم حامی و غمخوار طرفدار اللہ تعالیٰ ہے طرفدار تمہارا
تم اول و آخر ہو تمہیں باطن و ظاہر رب کرتا ہے یہ مرتبہ اظہار تمہارا
کیا جانیے ما اوحیٰ میں کیا راز ہیں مخفی تم جانتے ہو یا وہی ستار تمہارا
تم پیارے نبی نور جلی سر خفی ہو اللہ تعالیٰ ہے خبردار تمہارا
سر ہے وہی سر جس میں ترا دھیان ہے ہر آن اور دل ہے وہی جو ہے طلبگار تمہارا
جس کو مرض عشق نہیں ہے وہ ہے بیمار اچھا تو وہی ہے جو ہے بیمار تمہارا
ہر وقت ترقی پہ رہے در محبت چنگا نہ ہو مولیٰ کبھی بیمار تمہارا
دل میں نہیں کچھ اس کے سوا اور تمنا اللہ دکھا دے ہمیں دربار تمہارا
یہ ارض و سما خوان ہیں مہمان زمانہ سرکار نہیں کون نمک خوار تمہارا
ہر دم ہے تمہیں اپنی غلاموں پہ عنایت دن رات کا یہ کار ہے سرکار تمہارا
بے مانگے عطا کرتے ہو من مانی مرادیں دینا ہے غلاموں کو ہے کردار تمہارا
کیوں عرض کروں مجھ کو ہے اس چیز کی حاجت سب جانتا ہے یہ دلِ بیمار تمہارا
بالیں پہ چلے آؤ دمِ نزع خدارا دم توڑتا ہے ہجر میں بیمار تمہارا
لاشے کو کریں دفن مدینہ میں فرشتے مرجائے اگرہند میں بیمار تمہارا
پرواز کرے جسم سے جب روح تو دل میں اللہ ہو اور لب پہ ہو اقرار تمہارا
امت بھی تمہاری ہوئی اللہ کو پیاری اللہ سے وہ پیار ہے سرکار تمہارا
اٹھ جائے مدینے سے لحد کا مری پردہ میں دیکھ لو وہ چاند سا رخسار تمہارا
دن رات جو کرتے ہیں خطاؤں پہ خطاہیں بخشش کے لیے ان کی ہے اصرار تمہارا
اللہ نے وعدہ یہ کیا ہے شب معراج دوزخ میں رہے گا نہ گنہگار تمہارا
جب تم کو بلایا شبِ معراج خدا نے جبریل بنا غاشیہ بردار تمہارا
بندوں کو کسی وقت بھی دل سے نہ بھلایا ہے امت عاصی پہ عجب پیار تمہارا
کیوں عاصیوں غم سے ہی دل افگار تمہارا غمخوار تمہارا ہے وہ دلدار تمہارا
لو آیا وہ حامی و مددگار تمہارا بیڑاا ہوا اے اہل سنن پار تمہارا
اے عاصیوں تم اپنے گناہوں سے یہ کہدو سرکار مدینہ ہے خریدار تمہارا
میدا ن قیامت میں بجز ذات مقدس اور عاصیوں ہے کون خریدار تمہارا
گھبرائے گنہگار تو رحمت نے پکارا اے عاصیوں آپہنچا مددگار تمہارا
اعمال نہ کچھ پوچھنا رحمت کے مقابل جس وقت جمے حشر میں دربار تمہارا
دنیا میں قیامت میں سر پل پہ لحد میں دامن نہ چھٹے ہاتھ سے سرکار تمہارا
اے کاش ملائک سر محشر کہیں مجھ سے لو دھل گیا سب جرموں کا طومار تمہارا
اعداد کو جلانے کے لیے نار حسد میں ہم ذکر کیے جائیں گے سرکار تمہارا
تو حید پہ مرتے ہیں مگر اس سے ہیں غافل اللہ کا انکار ہے انکار تمہارا
توہین کو توحید سمجھتے ہیں وہابی سمجھے انہیں رب واحد قہار تمہارا
بلبل ہے جمیلِ رضوی اے گل وحدت مل جائے اسے رہنے کو گلزار تمہارا
قبالۂ بخشش