وہ بڑھتا سایۂ رحمت چلا زلف معنبر کا
ہمیں اب دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا
جو بے پردہ نظر آجائے جلوہ روئے انور کا
ذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشید خاور کا
شہِ کوثر ترحم تشنۂ دیدار جاتا ہے
نظر کا جام دے پردہ رخِ پر نور سے سر کا
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
یہاں آتے ہیں یوں عرشی کہ آوازہ نہیں پرکا
ہماری سمت وہ مہر مدینہ مہرباں آیا
ابھی کھل جائے گا سب حوصلہ خورشید محشر کا
چمک سکتا ہے تو چمکے مقابل ان کی طلعت کے
ہمیں بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا
رواں ہوسلسبیل عشقِ سرور میرے سینے میں
نہ ہو پھر نار کا کچھ غم نہ ڈر خورشیدِ محشر کا
ترا ذرہ وہ ہے جس نے کھلائے ان گنت تارے
ترا قطرہ وہ ہے جس سے ملا دھارا سمندر کا
بتانا تھا کہ نیچر ان کے زیرِ پا مسخر ہے
بنا پتھر میں یوں نقشِ کفِ پا میرے سرور کا
وہ ظاہر کے بھی حاکم ہیں وہ باطن کے بھی سلطاں ہیں
نرالا طور سلطانی ہے شاہوں کے سکندر کا
یہ سن لیں سایۂ جسمِ پیمبر ڈھونڈنے والے
بشر کی شکل میں دیگر ہے وہ پیکر پیمبر کا
وہ ظلِ ذاتِ رحماں ہیں نبوت کے مہِ تاباں
نہ ظِل کا ظِل کہیں دیکھا نہ سایہ ماہ و اخترؔ کا