قد جاء کم من اللہ نور
آفاقِ عرب ، نور ہے ، دنیاۓ عجم ، نور ظلمت کدۂ ِ دہر میں ہے اُن کا قدم ، نور
رخ نور ، جبیں نور ، زباں نور ، شکم نور وہ ایسے بشر ہیں کہ ہیں سر تا بقدم نور
کیا سایہ ، نظر آۓ کہیں دھوپ میں ان کا ہر سو ہے قدم بوسی ِ شہ کے لئے خَم ، نور
سورج ہیں مگر نور کا اقبال ہے ہر دم مہتاب کے جیسے کبھی ھوتا نہیں کم نور
وہ وحیِ الہی کے سوا کچھ نہیں کہتے لیتے ہیں احادیث سے قرآن کا ہم ، نور
کیا شان ہے ! محبوبیت ِ خیر ِ بشر کی اُن کے بَلَد ِ اَمن کی کھاتا ہے قسم ، نور
وہ سارے جہاں کے لئے ہیں پیکر ِ رحمت رہتا ہے سدا خلق پہ مائل بہ کرم ، نور
اُس نور کی مدحت کا یہ تابندہ اثر ہے کاغذ پہ گہر باری ِ امواج ِ قلم ، نور
دوری کے اندھیروں کو مٹادیتا ہے دل سے بنتا ہے تپِ عشق سے جب ہجر کا غم ، نور
واللیل کی تفسیر کا ہوتا ہے نظارہ جب ملتا ہے اُن عارض و گیسو کا بہم نور
جس نور ِ تبسم سے ملی گم شدہ سوئی ہوجاۓشبِ غم سےوہ مسکان کا ضَم نور
جنبش دیں ادھربھی وہ نگاہوں کےقلم کو سر نامۂ ِ اعمال پہ ہو جا ۓ رقم ، نور
کرتے ہیں سدا شرک کی ظلمت سے برائت توحید پہ ایمان کا رکھتے ہیں صنم ، نور
مایوس نہ لوٹیں گے شفاعت کے طلبگار رکھے گا سرِحشر بھی امت کا بھرم ، نور
خورشیدِ نبوت کی تجلی ہے یہ سیفی ! ہے شمعِ ہدایت سے مرے دل کا حرم ، نور
سیدشاکرحسین سیفی صدر شعبۂ افتاء دارالعلوم محبوب سبحانی