وہ اصل آئینۂ حقیقت، دہ عین حسنِ مجاز آئے سراجِ بزمِ اَلَشت بن کر زمیں پہ ہستی نواز آئے
مجھے تو جب لطف بندگی کا جبینِ عجز و نیاز آئے اِدھر ہو سجدہ اُدھر اٹھا کر حجاب جانِ نماز آئے
قدم قدم پر مجھے پکارا، تِرے کرم نے دیا سہارا عدم کی دشوار راہ میں جب کٹھن نشیب و فراز آئے
نثار ہے قَد نریٰ ادا پر، فدا ہے انداز پر فَتَرضٰے خدا اٹھاتا ہے ناز جن کے وہ ناز نیں جانِ ناز آئے
ترے سوا کرسکا نہ کوئی علاج بیمارِ زندگی کا بڑے بڑے چارہ ساز دیکھے بڑے بڑے چارہ ساز آئے
پھر ایسے عیسیٰ نفس کا درد فراق جاں آفریں نہ کیوں ہو کہ جس کے در پر اجل بھی لے کے پیامِ عمرِ دراز آئے
خلش مٹی روحِ مضمحل کی مراد بر آئی آج دل کی! وہ لطف گستر، غریب پرور، حضورﷺ اختؔر نواز آئے