وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری عیاں ہونے لگے انوارِ باری
نقیبوں کی صدائیں آ رہی ہیں کسی کی جان کو تڑپا رہی ہیں
مؤدب ہاتھ باندھے آگے آگے چلے آتے ہیں کہتے آگے آگے
فدا جن کے شرف پر سب نبی ہیں یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ یہی ہیں
یہی والی ہیں سارے بیکسوں کے یہی فریاد رس ہیں بے بسوں کے
یہی ٹوٹے دلوں کو جوڑتے ہیں یہی بند اَلم کو توڑتے ہیں
اَسیروں کے یہی عقدہ کشا ہیں غریبوں کے یہی حاجت روا ہیں
یہی ہیں بے کلوں کی جان کی کل انہیں سے ٹیک ہے ایمان کی کل
شکیب بے قراراں ہے انہیں سے قرارِ دل فگاراں ہے انہیں سے
اِنہیں سے ٹھیک ہے سامانِ عالم اِنہیں پر ہے تصدق جانِ عالم
یہی مظلوم کی سنتے ہیں فریاد یہی کرتے ہیں ہر ناشاد کو شاد
انہیں کی ذات ہے سب کا سہارا انہیں کے دَر سے ہے سب کا گزارا
انہیں پر دونوں عالم مر رہے ہیں انہیں پر جان صدقے کر رہے ہیں
انہیں سے کرتی ہیں فریاد چڑیاں انہیں سے چاہتی ہیں داد چڑیاں
انہیں کو پیڑ سجدے کر رہے ہیں انہیں کے پاؤں پر سر دھر رہے ہیں
انہیں کی کرتے ہیں اَشجار تعظیم انہیں کو کرتے ہیں اَحجار تسلیم
انہیں کو یاد سب کرتے ہیں غم میں یہی دکھ درد کھو دیتے ہیں دم میں
یہی کرتے ہیں ہر مشکل میں اِمداد یہی سنتے ہیں ہر بے کس کی فریاد
انہیں ہر دم خیالِ عاصیاں ہے انہیں پر آج بارِ دو جہاں ہے
کسے قدرت نہیں معلوم اِن کی مچی ہے دو جہاں میں دُھوم اِن کی
سہارا ہیں یہی ٹوٹے دلوں کا یہی مرہم ہیں غم کے گھائلوں کا
یہی ہیں جو عطا فرمائیں دولت کریں خود جَو کی روٹی پر قناعت
فزوں رُتبہ ہے صبح و شام اِن کا محمد مصطفی ہے نام اِن کا
مزین سر پہ ہے تاجِ شفاعت عیاںہے جس سے معراجِ شفاعت
بدن میں وہ عباے نور آگیں کہ جس کی ہر اَدا میں لاکھ تزئیں
کہوں کیا حال نیچے دامنوں کا جھکا ہے رحمتِ باری کا پلّہ
یہی دامن تو ہیں اے جانِ مضطر مچل جائیں گے ہم محشر میں جن پر
سواری میں ہجومِ عاشقاں ہے کوئی چپ ہے کوئی محو فُغاں ہے
کوئی دامن سے لپٹا رو رہا ہے کوئی ہر گام محو اِلتجا ہے
کوئی کہتا ہے حق کی شان ہیں یہ کوئی کہتا ہے میری جان ہیں یہ
یہ کہتا ہے کوئی بیمارِ فرقت ترقی پر ہے اب آزارِ فرقت
ادھر بھی اِک نظر او تاج والے کوئی کب تک دلِ مضطر سنبھالے
ز مہجوری بر آمد جانِ عالم ترحم یا نبی اللہ ترحم
نہ آخر رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنِی ز محروماں چرا فارغ نشینی
بدہ دستے زپا اُفتادگاں را بکن دلداریِ دلدادگاں را
بہت نزدیک آ پہنچا وہ پیارا فدا ہے جان و دل جس پر ہمارا
اُٹھیں تعظیم کو یارانِ محفل ہوا جلوہ نما وہ جانِ محفل
خبر تھی جن کے آنے کی وہ آئے جو زینت ہیں زمانے کی وہ آئے
فقیرو جھولیاں اپنی سنبھالو بڑھو سب حسرتیں دل کی نکالو
پکڑ لو اِن کا دامن بے نواؤ مرا ذمہ ہے جو مانگو وہ پاؤ
مجھے اِقرار کی عادت ہے معلوم نہیں پھرتا ہے سائل اِن کا محروم
کرو تو سامنے پھیلا کے دامن یہ سب کچھ دیں گے خالی پا کے دامن
حسنؔ ہاں مانگ لے جو مانگنا ہو بیاں کر آپ سے جو مدعا ہو
مرے آقا مرے سردار ہو تم مرے مالک مرے مختار ہو تم
تصدق تم پر اپنی جان کر دوں ملیں تو دو جہاں قربان کر دوں
تمہیں افضل کیا سب سے خدا نے دیا تاجِ شفاعت کبریا نے
تمہیں سے لو لگائے بیٹھے ہیں ہم تمہارے در پہ آئے بیٹھے ہیں ہم
تمہارا نام ہم کو حرزِ جاں ہے یہی تو داروے دردِ نہاں ہے
بلا لیجے مدینے میں خدارا نہیں اب ہند میں اپنا گزارا
تمہارا دَر ہو اور سر ہو ہمارا اسی کوچے میں ہو بستر ہمارا
قضا آئے تو آئے اِس گلی میں رہے باقی نہ حسرت کوئی جی میں
نہ ہو گور و کفن ہم کو میسر پڑا یوں ہی رہے لاشہ زمیں پر
سگانِ کوچۂ پُر نور آئیں مرے پیارے مرے منظور آئیں
مرے مُردے پہ ہوں آ کر فراہم غذا اپنی کریں سب مل کے باہم
ہمیشہ تم پہ ہو رحمت خدا کی دعا مقبول ہو مجھ سے گدا کی
ذوقِ نعت