وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں اُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں
ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھو مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں
تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں
اے بلا بے خِرَدِیِّ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار کہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں
اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں
رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں
انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں
ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد اسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں
آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے گرنے والوں کو چہِ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں
جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کھلکھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر پھول جامہ سے نکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں
تو ہے وہ بادشہِ کون و مکاں کہ مَلک ہفت فلک کے ہر آں تیرے مولیٰ سے شہِ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں
جس کے جلوے سے اُحُد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں
کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وَری تیرے ہی دَم کی ہے سب جلوہ گری مَلک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپاکرتے ہیں
لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منھ میں گھل جاتا ہے شہدِ نایاب وَجْد میں ہوکے ہم اے جاں بے تاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں
لب پہ کس منھ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دل ہے الم جس کا سنائیں ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے در پر جو مٹا کرتے ہیں
اپنے دل کا ہے انھیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انھیں کو سب کام لو لگی ہے کہ اب اس در کے غلام چارۂ دردِ رؔضا کرتے ہیں
(حدائقِ بخشش)