نہ مایوس ہو میرے دُکھ درد والے درِ شہ پہ آ ہر مرض کی دوا لے
جو بیمار غم لے رہا ہو سنبھالے وہ چاہے تو دَم بھر میں اس کو سنبھالے
نہ کر اس طرح اے دلِ زار نالے وہ ہیں سب کی فریاد کے سننے والے
کوئی دم میں اب ڈوبتا ہے سفینہ خدارا خبر میری اے ناخدا لے
سفر کر خیالِ رُخِ شہ میں اے جاں مسافر نکل جا اُجالے اُجالے
تہی دست و سوداے بازارِ محشر مری لاج رکھ لے مرے تاج والے
زہے شوکتِ آستانِ معلّٰی یہاں سر جھکاتے ہیں سب تاج والے
سوا تیرے اے ناخداے غریباں وہ ہے کون جو ڈوبتوں کو نکالے
یہی عرض کرتے ہیں شیرانِ عالم کہ تو اپنے کتوں کا کتا بنا لے
جسے اپنی مشکل ہو آسان کرنی فقیرانِ طیبہ سے آ کر دعا لے
خدا کا کرم دستگیری کو آئے ترا نام لے لیں اگر گرنے والے
دَرِ شہ پر اے دل مرادیں ملیں گی یہاں بیٹھ کر ہاتھ سب سے اُٹھا لے
گھرا ہوں میں عصیاں کی تاریکیوں میں خبر میری اے میرے بدرالدجیٰ لے
فقیروں کو ملتا ہے بے مانگے سب کچھ یہاں جانتے ہی نہیں ٹالے بالے
لگائے ہیں پیوند کپڑوں میں اپنے اُڑھائے فقیروں کو تم نے دوشالے
مٹا کفر کو ، دین چمکا دے اپنا بنیں مسجدیں ٹوٹ جائیں شوالے
جو پیش صنم سر جھکاتے تھے اپنے بنے تیری رحمت سے اﷲ والے
نگاہِ ز چشم کرم بر حسنؔ کن بکویت رسید ست آشفتہ حالے
ذوقِ نعت