نگاہوں میں ہے سبز گنبد کا منظر تو یاد ان کی دل میں سمائی ہوئی ہے
میں قربان اس نسبتِ مصطفی کے یہ نسبت بڑا رنگ لائی ہوئی ہے
ہم اہل وفا کا بھرم ہیں تو وہ ہیں عطا ہیں تو وہ ہیں کرم ہیں تو وہ ہیں
جِسے لوگ کہتے ہیں ویرانہ دل یہ دنیا انہیں کی بسائی ہوئی ہے
خلش قلبِ بیتاب کی کم نہ ہوتی دلیل ِ محبت فراہم نہ ہوتی
سلامت رہیں میری آنکھوں کے آنسو یہی زندگی میں کمائی ہوئی ہے
گدائے نبی ہے زمانے کا سلطاں فدا اس کی قسمت پہ ہے شانِ شاہاں
خدا کی قسم وہ غنی ہے کہ جس نے مدینے میں دھونی رمائی ہوئی ہے
کبھی خود کو میں نے مدینے میں پایا کبھی عرش بھی میری آنکھوں میں آیا
یہ ان کی محبت نے معراج بخشی مری لامکاں تک رسائی ہوئی ہے
یہ نام محمد میں تاثیردیکھی بدلتی ہوئی پل میں تقدیر دیکھی
انہیں جب پکارا ہے بیتاب ہو کر مری قید غم سے رہائی ہوئی ہے
غلامِ رسولِ مکرّم ہے خاؔلد نہ زاہد ہے خاؔلد نہ عابد ہے خاؔلد
مگر اس کرم کا ٹھکانا نہیں ہے پہاڑ ایک نا چیز رائی ہوئی ہے