ظہورِ قدسی
نوشہ کی کب آتی ہے سواری ہے سب کی زبانِ دل پہ جاری وا، سب کی ہیں بیقرار آنکھیں دولہا پہ ہوں کب نثار آنکھیں تارے ہیں جھکے زمیں کی جانب دیدار کا ماہتاب طالب اشجار بھی سرو قد کھڑے ہیں خاموش، ادب سے سر جھکے ہیں نرگس کی کھلی ہوئی ہیں آنکھیں شبنم سے دُھلی ہوئی ہیں آنکھیں ہیں چشم براہ غنچہ و گل قمری ہے خموش، چپ ہے بُلبل دولہا کی سواری کب ہے آتی بیتاب کھڑا ہے ہر براتی انگڑائیاں رات لے رہی ہے کچھ شب ہے تو کچھ سحرا بھی ہے دنیا پہ ہے اِک سکوت طاری مائل ہوا لطفِ خاص باری ہے اَوج پر کوکبِ دو شنبہ آئی سحرِ شبِ دو شنبہ وہ مرغ، وہ جبرئیل انور پَر آمنہ کے شکم سے مَل کر کرنے لگے با ادب گزارش ہو ابرِ کرم، کرم کی بارش کونین کی بزم سج چکی ہے جلوے کو نظر ترس رہی ہے یاسید المرسلینﷺ، اظہر یارحمتِ عالمینﷺ، اظہر پردے سے حضورﷺ باہر آئیں بیتاب ہیں منتظر نگاہیں باجاہ و حشم، باشان و شوکت ظاہر ہوئے سرورِ رسالتﷺ