نقشہ تری گلی کا ہماری نظر میں ہے
اِک کیف اِک سرور سا قلب و جگر میں ہے
کیوں کر جبیں جھکے نہ دو عالم کی اس جگہ
تکمیل رفعتوں کی ترے سنگِ در میں ہے
آسُودہ ہوگیا ہے مرا اِضطرابِ دِید
کیا دِلکشی مدینے کے دیوار دور میں ہے
نقشِ قدم سے تیرے منوّر ہیں دو جہاں
ہر ذرّہ آفتاب تری رِہگذر میں ہے
منزل بقدر شوق ہےمجھ سے بہت قریب
راہِ دیار قدس مری چشم تر میں ہے
اپنے ہی جیسا کیسے انہیں مان لیجئے!
جو وصف ہے بشیر میں وہ کب بشر میں ہے
خاؔلد ہیں راہ ِ شوق کے آداب مختلف
بیٹھا ہوا ہوں اور مرا دِل سفر میں ہے