نعت کی قسمیں موضوع، مواد اور پیشکشی کے اعتبار سے نعت کی کئی قسمیں ہیں۔ نعت گوئی کے فن پر کام کرنے والوں نے نعت کے دو بنیادی قسمیں بیان کی ہیں۔
۱۔ رسمی نعت گوئی یہ ایک قسم کی شعری روایت ہے۔ جس طرح روایت کی پاسداری اور اُسے ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانا فریضہ سمجھا جاتا ہے اُسی طرح اردو کے قدیم شعراء نے اپنی منظوم شاعری کے آغاز میں روایتی انداز میں حمد و نعت کے اشعار شامل کئے ہیں۔ اردو کی مثنویوں کے آغاز میں حمد و نعت کی روایت ملتی ہے۔ یہاں شاعر کا مقصد نعتیہ اشعار پیش کرنا نہیں بلکہ شاعری کے معاملہ میں اپنے دور کی روایات کو ملحوظ رکھنا ہے کیونکہ اس دور میں کسی بھی مثنوی سے قبل حمد و نعت کہنا لازمی تھا۔ اس طرح کی نعت گوئی کا ایک مقصد حصول برکت بھی ہے۔
۲۔ حقیقی نعت گوئی اس طرح کی نعت گوئی شعوری طور پر کی جاتی ہے اور شاعر عشقِ رسولﷺ میں ڈوب کر حصولِ ثواب و برکت کی خاطر ذکر رسولﷺ و تعلیمات رسولﷺ کو عام کرنے کی نیت سے صرف نعتیہ اشعار کہتا ہے اُس کا مقصد کوئی اور نظم لکھنا نہیں ہوتا اس لئے شاعر نعت گوئی کے حقیقی جذبات میں ڈوب کر سچے دل سے نعت کہتا ہے۔ اردو کے مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی کا نام اس طرح کے حقیقی نعت گو شعراء کی قسم میں سرفہرست ہے۔ محسن کاکوروی کی نعت گوئی کے بارے میں فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ ’’محسن نے دوسرے شعراء کی طرح نعت گوئی کو جزوی یا رسمی طور پر نہیں اپنایا بلکہ اسے پوری توجہ اور پورے شعور کے ساتھ فکر و فن کی جولان گاہ بنایا۔ بلاشبہ اردو شاعری میں نعت گوئی کی روایت کو مستقل حیثیت دینے اس کے امکانات کو روشن کرنے اور شاعری کو بلند سطح تک پہنچانے میں جتنا ہاتھ محسن کا ہے کسی اور کا نہیں ؎ ہیئت اور مواد کے اعتبار سے نعت گوئی کی دیگر اقسام اس طرح ہیں۔
عشقیہ نعت عشق محمدیﷺ کا اظہار نعت کا اہم پہلو رہا ہے۔ چنانچہ ایسی نعت جس میں حضور اکرمﷺ کی ذات آپﷺ کی صفات آپﷺ کی سیرت اور آپؐ کی سنتوں، آپ کے خاندان، اور آپ کے صحابہؓ سے محبت کا اظہار عشقیہ نعتوں میں ہوتا رہے۔ اس قسم کی نعتوں میں مدینہ سے دوری پر بے چینی، روضۂ رسولﷺ پر حاضری کی آرزو، مدینہ جانے والوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھنا، مدینے میں مرنے اور وہاں کی مٹی میں دفن ہونے کی آرزو، مدینہ کی پُر فضاء ہواؤں کا ذکر، عشقیہ نعت کے موضوعات ہیں۔ اس قسم کی نعتوں میں شاعر عشق محمدیﷺ میں ڈوب کر جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ توصیفی نعت اس قسم کی نعتوں میں حضورﷺ کی تعریف و توصیف ہوتی ہے۔ آپﷺ کے ظاہری و باطنی اوصاف بیان کئے جاتے ہیں اور آپﷺ کی سیرت کے پہلوؤں کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی نعتوں میں بھی عشق محمدیﷺ کا عنصر غالب رہتا ہے۔
مقصدی نعت حضورﷺ کے زمانے میں بعض صحابہؓ نے کفار کی زبانی تکالیف کا جواب دینے کے لئے حضورﷺ کی تعریف و توصیف کو جوابی کارروائی کے طور پر استعمال کیا ہے اور بعد کے دور میں تبلیغ اسلام کے لئے نعت کو ایک مقصد کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس قسم کی مقصدی نعتوں کو پیش کرنے کا مقصد حضورﷺ کی بزرگی و بڑائی کو عام کرنا ہے۔ اس طرح نعت کو اچھے مقاصد کے حصول کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تاریخی نعت گوئی نعت کا ایک انداز تاریخی بھی ہے جس میں آپﷺ کی سیرت مبارکہ کے واقعات تاریخی انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ تاریخی نعتوں میں وہ نعتیں بھی شامل ہیں جن میں نور نامے، میلاد نامے، وفات نامے شامل ہیں۔ حضورﷺ کے زمانے کی جنگوں، غزوات اور مہمات کے واقعات کا بیان بھی تاریخی نعتوں کا حصہ ہے۔
نعت میں صلوٰۃ و سلام حضور پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا اور درود بھیجنا اللہ کا حکم اور آپﷺ کی سنت رہی ہے۔ سورہ احزاب میں اللہ نے کہہ دیا کہ’’ اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے آپﷺ پر سلام بھیجتے ہیں۔ اس لئے اے ایمان والو! تم بھی آپﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجو‘‘ چنانچہ نعت کے آغاز پر حضورﷺ کی خدمت میں صلوٰۃ و سلام پیش کرنا بھی نعت کا اہم حصہ ہے اور شعراء نے ساری نعت بھی صلوٰۃ و سلام کے بیان پر کہی ہے۔
نعت کے قدیم اور جدید اسلوب نعت گوئی کا فن قرآن و حدیث سے لے کر قدیم آسمانی کتب اور آپﷺ کی بعثت سے لے کر زمانے حال تک ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے۔ عربی اور فارسی شاعری میں نعت گوئی کا فن مقامی اثرات کے ساتھ ترقی پاتا رہا اور اردو شاعری کی طرح اردو نعت گوئی بھی عربی و فارسی اثرات کی حامل رہی لیکن بعد کے دور کے اردو شعراء نے نعتوں میں ہندوستانی روایت کو شامل کیا تو نعت گوئی کے اسالیب میں بھی فرق آیا۔ قدیم دور میں زیادہ تر نعتیں، قصیدہ، مثنوی اور غزل کی ہیئت میں لکھی گئی اور اُن میں روایتی علامات، تشبیہات و استعارے استعمال کئے گئے اور حضورﷺ کے ذکر مبارک میں جگہ جگہ مجازی محبوب سے خطاب کا انداز اختیار کیا گیا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد اردو شاعری کی طرح اردو نعت کی ہیئت اور اسلوب میں بھی فرق آیا۔