نظر میں جلوہ ہو آٹھوں پہر مدینے کا
طواف کرتا رہوں عمر بھر مدینے کا
جبیں کے ساتھ جہاں دل بھی جا کے جھکتا
نصیب کاش ہو وہ سنگ ِ در مدینے کا
ہر اک خیال سے ہوجائے میرا دل خالی،
بس اک خیال رہے ہم سفر مدینے کا
یہ فاصلے تو نظر فریب ہیں ورنہ
جدھر بھی دیکھو ہے جلوہ ادھر مدینے کا
مریضِ ہجر اسی آرزو میں جیتا ہے
سنائے مژدہ کوئی آن کرمدینے کا
خدا کرے یہی جلوے مرا نصیب رہیں
ادھر ہو کعبے کا جلوہ اُدھر مدینے کا
کرم کی بھیک سے مجھ کو نواز دے یارب
سمجھ کے ایک سگِ بے ہنر مدینے کا
ہر ایک رنگ جہاں کا فنا بداماں ہے
ہر ایک رنگ امر ہے مگر مدینے کا
مہ و نجوم کے چہرے کا رنگ اڑ جائے
اگر ہو مہر جبیں جلوہ گر مدینے کا
سکون سائیہ دِیوارِ مصطفی کی قسم
ہے ذرہ ذرہ بہشتِ نظر مدینے کا
وہ ایک سجدہ ہے بھاری ہزار سجدوں پر
جسے قبول کرے سنگِ در مدینے کا
ہر ایک چیز کے مالک ہیں صاحب ِ لولاک
لکھا ہے نام ہر اک چیز پر مدینے کا
اسی ہوا سے کھلے گی ہمارے دل کی کلی
ہو جس ہوا کی نمی میں اثر مدینے کا
خدا کا کتنا بڑا مجھ پہ ہے کرم خاؔلد
لبوں پہ ذکر ہے شام و سحر مدینے کا