میں نے اللہ سے طیبہ کی دعا مانگی ہے گنبدِ خضریٰ کی پر کیف فضا مانگی ہے
کاش بن جائے مدینہ بھی ہمارا مسکن اک تڑپتے ہوئے دل کی یہ دوامانگی ہے
اہلِ دل کو تو ملا کرتا ہے سکوں طیبہ میں ہم نے بھی دامنِ خضریٰ کی ہوا مانگی ہے
لاج رکھتے ہیں گنہگاروں کی سرکار مرے جس نے دربارِ مقدس کی رضا مانگی ہے
کتنا خوش بخت ہے طیبہ میں اگر موت آئے زندگی بنتی ہے جس سے وہ قضا مانگی ہے
شرم عصیاں کی لئے پھرتا رہا عالم میں بس کرم پر ترے رحمت کی ادا مانگی ہے
روزِ محشر کی بھلا فکر اسے کیا ہوگی جس نے سرکارِ مدینہ کی عطا مانگی ہے
پَرْ تَوِ نور سے روشن ہے جہانِ امکاں میری تقدیر نے وہ نوری ضیا مانگی ہے
مانگنے والوں میں اظہارؔ بھی منگتا ہے ترا اس نے ہر درد کی چھوکھٹ سے شفا مانگی ہے
سید اظہار اشرف کچھوچھوی