میرے آقا نے جو طیبہ میں بلایا ہوتا خاک کو دوشِ ثُریّا پہ بٹھایا ہوتا
صحبتِ خاکِ قدم ملتی جو پل بھر کے لئے چاند و سورج کو بھی عش عش پہ اُبھارا ہوتا
اُحد کیا کون و مکاں شکل میں ہوتے زر کی وجہِ تخلیقِ خدا کا جو اشارہ ہوتا
غار میں پیارے نبی ، یارِ نبی کو دیکھا اس کبوتر کی ہی آنکھوں کا میں دیدہ ہوتا
میرے اعمال تو لے جاتے جہنم میں اگر شافعِ روزِ جزا نے نہ بچایا ہوتا
ماہپاروں نے لیا حشر میں نورِ بخشش شمسِ طیبہ مجھے کرنوں میں سمایا ہوتا
اے رضا والوں رضا کار ہو تم کوثر پر ہم رضا والوں کو محشر میں یہ مژدہ ہوتا
ترک رکھتے جو تعلق بھی یزیدوں سے اگر یاں بھی حسنین کے بابا کا سہارا ہوتا
غور کر نعت ہر ایک نعت ہے حمدِ رب بھی حق ہے محبوب و مُحب میں نہیں میرا ہوتا
شاعری اہل ہنر جانیں ، تمنّا یہ ہے مدحتِ مالکِ کُل میرا وظیفہ ہوتا
کاش رکھ دیتے قدم قلب پہ وہ اے فاراں کوہِ فاراں کی طرح تیرا نصیبا ہوتا