میرا گھر غیرت خورشیدِ درخشاں ہوگا خیر سے جان قمر جب کبھی مہماں ہوگا
جو تبسم سے عیاں اک درِ دنداں ہوگا ذرہ ذرہ مرے گھر کا مہِ تاباں ہوگا
کیوں مجھے خوف ہو محشر کا کہ ہاتھوں میں مرے دامن حامی خود، ماحی عصیاں ہوگا
پلہ عصیاں کا گراں بھی ہو تو کیا خوف مجھے میرے پلے پہ تو وہ رحمت رحماں ہوگا
مجھ سے عاصی کو جو بے داغ چھڑا لائیں گے اہل محشر میں جو دیکھے گا وہ حیراں ہوگا
کوئی منہ میرا تکے گا کہ یہ وہ عاصی ہے جس کو ہم جانتے تھے داخل میزاں ہوگا
کوئی اس رحمت عالم پہ تصدق ہوگا کوئی یہ شان کرم دیکھ کے قرباں ہوگا
ماجرا دیکھ کے ہوگا یہ کسی کو سکتہ اک تعجب سے وہ انگشت بد نداں ہوگا
ان کی حیرت پہ کہوں گا کہ تعجب کیا ہے خود خدا ہوگا جدھر سرور ذیشاں ہوگا
دم نکل جائے تمہیں دیکھ کے آسانی سے کچھ بھی دشوار نہ ہوگا جو یہ آساں ہوگا
زخم پر زخم یہی کھائے یہی قتل بھی ہو خون مسلم ابھی کیا اس سے بھی ارزاں ہوگا
بھیڑیوں کا ہے یہ جنگل نہیں کوئی راعی بھولی بھیڑوں کا شہا کون نگہباں ہوگا
ظلم پرظلم سہے اور سزائیں بھگتے اور اف کی تو تہ خنجر برّاں ہوگا
یہی اندھیرا گر اور بھی کچھ روز رہا تو مسلماں کا نشاں بھی نہ نمایا ہوگا
صبح روشن کی سیہ بختی سے اب شام ہوئی کب قمر نور دہِ شام غریباں ہوگا
تو اگر چا ہے ملے خاک میں سلطان زماں تیرا بندہ کوئی تو چا ہے تو سلطاں ہوگا
ظلمت قبر کا کیا خوف مجھے اے نورؔی جب مرے قلب میں ایماں کا لمعاں ہوگا
سامانِ بخشش